تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
پچھلے ایک سال سے غزہ میں نسل کشی جاری ہے اور فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ کئی ماہ ہوئے اسرائیل لبنان پر بھی حملہ آور ہوچکا ہے۔ جنوبی لبنان کے شہروں کے شہر خالی ہوچکے ہیں اور اب ہر روز فضا سے برسنے والے بارود سے خاک کی طرح اڑ رہے ہیں۔ بیروت اور غزہ کے قبرستان آباد ہو رہے ہیں۔مسلم حکمرانوں نے سوائے خاموشی اور استعمار کی خدمت کے اور کچھ نہیں کیا۔بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ امت مسلمہ کی قیادت کا امیدوار سعودی عرب غزہ کی حمایت میں زبانی کلامی ہی سامنے آئے گا، مگر تمام امیدواران کو مایوسی ہوئی۔ اس کی طرف سے ایران پر پابندیوں اور اس کے خلاف فوجی کارروائی تک کی حمایت کی خبریں بین الاقوامی میڈیا پر آتی رہیں۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ٹرمپ کے داماد نے محمد بن سلمان کو ایران سے اتنا ڈرایا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ فوجی اتحاد پر بھی راضی ہوگیا۔
اسرائیل نے غزہ کے بعد لبنان اور لبنان کے بعد ایران پر ناکام حملہ کیا ہے۔ اس دوران اس نے شام اور عراق پر بھی حملے کیے ہیں۔ یوں اس نے بنیادی طور پر فلسطین، لبنان، یمن، شام، عراق اور ایران پر حملے کیے۔ یہ جنگ اب آگے بڑھ رہی ہے۔ ٹرمپ کی جیت نے اسرائیل کو جنگ مزید بھڑکانے کی شہ دی ہے، جنگ ختم ہوتے ہی نیتن یاہو جیل میں ہوگا۔ اس لیے وہ کسی صورت میں جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسلامی تعاون کی تنظیم کا سعودی عرب میں اجلاس ہو رہا ہے، جس میں رکن ممالک شریک ہیں۔ ویسے تو یہ تنظیم نشستن، گفتن، خوردن اور رفتن کی مثال بن چکی ہے، مگر کل کے اجلاس میں محمد بن سلمان نے جو بیان دیا، اس پر بین الاقوامی میڈیا کافی تبصرے کر رہا ہے۔
ریاض میں مسلم ممالک کے اجلاس میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو "نسل کشی" قرار دیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور اسرائیل کو ایران پر حملوں کے خلاف خبردار بھی کیا، جو تہران اور ریاض کے درمیان بہتر تعلقات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ غزہ میں گذشتہ برس جنگ کے آغاز کے بعد سے سعودی حکام کی جانب سے پہلی بار اتنا سخت بیان سامنے آیا ہے۔ یہ واقعی حیران کن بیان ہے کہ اسرائیل کی نسل کشی کو محمد بن سلمان نے نسل کشی کہا ہے، جو کچھ عرصہ پہلے تک یہ کہہ رہا تھا کہ میں غزہ اور فلسطین کی بجائے اپنے لوگوں کے بارے میں سوچتا ہوں۔ ایران کے خلاف اقدامات سے تو دنیا آگاہ ہے۔
سفارتکاری اور رابطہ بہت سے بظاہر ناممکن نظر آنے والے کام کروا دیتا ہے۔ چین کی سربراہی میں ہونے والے مذاکرات نے خطے میں ایران اور سعودی کے درمیان نئے تعلقات کی بنیاد رکھی ہے۔ شہید خدمت، سید ابراہیم رئیسیؒ نے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی جن سفارتی کوششوں کی بنیاد رکھی تھی، لگ یوں رہا ہے، آج بہتر نتائج دے رہی ہیں۔ باہم آمد و رفت شروع ہوچکی ہے۔ گذشتہ اکتوبر کے آغاز میں ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی ریاض پہنچے تھے اور ولی عہد سے ملاقات بھی کی تھی۔ سعودی عرب کا اعلیٰ سطحی وفد ایران پہنچا تھا، ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سے بذریعہ ٹیلی فون رابطہ کیا تھا۔ سعودی پریس ایجنسی کے مطابق مسعود پزشکیان نے محمد بن سلمان کو فون کیا اور اس بات چیت کے دوران اسلامی کانفرنس پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
سعودی عرب کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل فیاض بن حامد الرویلی بھی تہران پہنچے تھے۔ ایران کی مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق سعودی مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل فیاض بن حامد الرویلی نے ایران کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل محمد بغیری سے دفاعی تعلقات پر تبادلہ خیال بھی کیا۔ سعودی عرب کی وزارت دفاع نے اس دورے کے حوالے سے معلومات ایکس پر شیئر کیں اور کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات فوجی اور دفاعی تعاون پر بات چیت کے لیے ہے۔ یہ بہت بڑا بریک تھرو ہے کہ دفاعی معاملات میں تعاون کے لیے اتنی بڑی سطح پر رابطہ کیا گیا۔ اس کے عملی نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔
سعودی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے بحیرہ عرب میں کئی ممالک کے ساتھ بحری مشقیں کی ہیں، جن میں ایران بھی شامل ہے۔ ایران کی فوج روس اور عمان کے ساتھ شمالی بحر ہند میں مشترکہ فوجی مشقیں کر رہی ہے، جس میں سعودی عرب سمیت چھ دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ ایران کے فوجی کمانڈر ایڈمرل شہرام ایرانی نے کہا تھا کہ سعودی عرب نے بحیرہ احمر میں مشترکہ فوجی مشقوں کی درخواست کی، تاہم فوجی مشقوں کی کوئی مخصوص تاریخ نہیں بتائی گئی۔ لگ یوں رہا ہے کہ ایران کے اسرائیل پر حملے نے طاقت کے توازن کو تبدیل کیا ہے۔ خطے کے ممالک کو لگنے لگا ہے کہ طاقت میں توازن کے لیے بجائے یورپ پر تکیہ کرنے کے خطے کے ممالک باہمی طور پر مل کر اچھے نتائج لے سکتے ہیں، جو تمام ممالک کے لیے بہتر ہوں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران ایک مدت سے یہی کہہ رہا تھا کہ خطے کے ممالک ملکر اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں، باہر سے کوئی ان مسائل کو آکر حل نہیں کرے گا، بلکہ بیرونی افواج کی موجودگی ہی مسائل کی جڑ ہے۔ خدا کرے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے یہ بیانات ان کی پالیسیوں میں بھی نظر آئیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپنی قیمت بڑھانے کے گورکھ دھندھے میں بعض اوقات ایسے بیانات داغ دیئے جاتے ہیں اور بعد میں پوری قیمت وصول کرکے پرانی تنخواہ پر راضی ہو جاتے ہیں۔ خبریں آ رہی ہیں کہ اسرائیل امریکی سربراہی میں ایک نیا اتحاد بنا رہا ہے، جس میں اسرائیل، اردن، مصر اور سعودی عرب شامل ہوں گے۔ ایسا کوئی بھی اتحاد امت کی کشتی میں سوراخ کرنے کے مترادف ہوگا۔ فلسطین اور دیگر کئی ممالک تباہ کرنے کا منصوبہ ہوگا اور اگلی کئی دہائیوں تک جنگ مسلسل جاری رہے گی۔ حکمران یاد رکھیں، عرب و عجم کی مسلم عوام فلسطین کے معاملے میں ان کی لاپرواہی کو دیکھ رہی ہے اور شدید غصے میں ہے۔