0
Monday 18 Nov 2024 11:38

غزہ کی تباہی اور مسلم حکمرانوں کا دُہرا کردار

غزہ کی تباہی اور مسلم حکمرانوں کا دُہرا کردار
تحریر: عادل فراز

بارہ نومبر کو ریاض میں عرب اور اسلامی ممالک کا ہنگامی سربراہی اجلاس طلب کیا گیا تھا، جس میں مسئلہ فلسطین کی مرکزیت پر گفتگو ہوئی۔ ساتھ ہی غزہ و لبنان میں جاری نسل کشی اور ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی گئی۔ پہلی بار محمد بن سلمان نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی اور اس کو عالم اسلام پر حملے سے تعبیر کیا۔ اس اجلاس میں 50 ملکوں نے شرکت کی اور سب نے اتفاق رائے سے بیان جاری کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے حل پر زور دیا۔ بیان میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی پر روک لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس اجلاس کے بعد جو مشترکہ بیان منظر عام پر آیا، وہ قابل تحسین ہے مگر لائق عمل نہیں! کیونکہ اس اجلاس میں شریک اکثر مسلمان ملک صہیونی حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔صہیونی حکومت کو تیل اور امدادی سامان کی فراہمی انہی ملکوں کے ذریعے انجام پا رہی ہے، جن میں ترکیہ، مصر اور اردن جیسے ملک سرفہرست ہیں۔

اس لئے یہ اجلاس باہمی مذمتی قرارداد اور چند مطالبوں تک سمٹ کر رہ جائے گا۔ورنہ جس بلند ہمتی کا مظاہرہ یمن نے بحر احمر میں کیا ہے، اگر اس کا ایک فیصد عزم بھی مسلم حکمرانوں میں پایا جاتا تو اب تک یہ جنگ ختم ہوچکی ہوتی اور صہیونی فوجیں کبھی لبنان کا رخ نہیں کرتیں۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوگان گفتار کے غازی ہیں۔ وہ مسلسل غزہ کی تباہی اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف بیانات دے رہے ہیں۔ غزہ پر حملے کے فوراً بعد انہوں نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا، جس کے بعد وہ مسلمانوں میں ایک لیڈر کے طورپر ابھر کر سامنے آئے تھے۔ عالم اسلام کو یہ لگ رہا تھا کہ شاید اردوگان اسرائیل کے خلاف کسی بڑے عملی اقدام کا اعلان کریں گے، مگر گذشتہ ایک سال میں ایسا نہیں ہوا۔ غزہ کے مظلوموں کے لئے ترکیہ نے امدادی سامان بھجوایا ہے، مگر اس امداد کو بھی اسرائیل کے سپرد کر دیا گیا۔

اسرائیل امدادی سامان کو مہینوں تک ضرورت مندوں تک پہنچنے نہیں دیتا اور جب سامان کی "ایکسپائری ڈیٹ" نزدیک آجاتی ہے تو اس کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔ اگر ترکیہ کے صدر چاہتے تو یہ امداد بلاتاخیر غزہ تک پہنچ سکتی تھی، مگر انہوں نے اس بارے میں زیادہ توجہ نہیں دی۔ اردوغان نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ترکیہ وہ پہلا اسلامی ملک ہے، جس نے اسرائیل کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کردی ہیں، لیکن شواہد اس کے برعکس ہیں۔ ترکیہ اور صہیونی حکومت کے درمیان مسلسل تجاری حجم بڑھ رہا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اردوگان مسلمانوں کو فریب دے رہے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023ء طوفان الاقصیٰ کے بعد سے اب تک ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تجارتی تعلقات استوار ہیں۔ 2022ء تک ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان تجارت کا حجم نو اعشاریہ ایک ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ 2023ء میں اس میں اضافہ ہوا اور 6 اعشاریہ دو ارب ڈالر ہوگیا۔

غزہ پر حملے کے بعد بھی ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان مسلسل تجارتی تعلقات بحال ہیں۔ 2023ء میں انقرہ نے پانچ اعشاریہ چار ارب ڈالر کی مصنوعات اور سامان اسرائیل کو برآمد کیا اور ایک اعشاریہ ۶ ارب ڈالر کا سامان اسرائیل نے ترکیہ درآمد کیا ہے۔ ترکیہ کے عوام بھی پہلے پہل اردوگان کے فریب میں آگئے، مگر بہت جلد ان پر اردوگان کی حقیقت بے نقاب ہوگئی اور اب عوام مسلسل اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ انہوں نے استنبول میں ایک صہیونی ٹرک کو روک لیاتھا اور یہ نعرہ لگایا کہ ہمیں اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات قبول نہیں۔ ترکیہ کی بندرگاہ آوجی لار پر بھی فلسطین کے حامی مظاہرین نے احتجاج کیا اور ترک حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تجارتی روابط برقراررکھنے پر اپنی سرکار کی مذمت کی۔ اس وقت استنبول کے ساحل پر ایک صہیونی مال بردار جہاز موجود تھا، جس پر مظاہرین نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔

ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے مطابق آئندہ چند ماہ کے دوران اسرائیل ایک سو بیس بحری جہاز ترکیہ سے تجاری سامان برآمد کرے گا۔ ترک مظاہرین نے ایک ایسے جہاز کو بھی روک لیا تھا، جس پر جرمنی کا پرچم لہرا رہا تھا اور یہ جہاز اسرائیلی فوج کے لئے ہتھیار لے کر جا رہا تھا۔ یہ جہاز حیدر پاشا بندرگاہ پر لنگر انداز تھا، جس کے خلاف عوام نے شدید احتجاج کیا۔ یہ معاملہ فقط تجارت تک محدود نہیں ہے۔ گذشتہ دنوں الجزیرہ نے یہ خبر دی تھی کہ اسرائیل میں چار ہزار ترک نژاد فوجی موجود ہیں، جو غزہ اور لبنان کے خلاف میدان میں ہیں۔ ان کے پاس ترکیہ کی شہریت موجود ہے۔ ترکیہ کے رکن پارلیمنٹ پایا پیچی نے اس معاملے کو پارلیمنٹ میں اٹھایا، لیکن اردوگان نے ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ یہی نہیں بلکہ ترکیہ نے اسرائیل کو آذربائیجان کا تیل فراہم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

آذربائیجان کے اکثر تیل ذخائر پر امریکی کمپنیوں کا قبضہ ہے۔ کرکوک جیحان پائپ لائن اسرائیل کو خام تیل فراہم کرنے میں مدد پہنچاتی ہے۔ صہیونی حکومت کو ضرورت کا 40 فیصد تیل اسی پائپ لائن کے ذریعے پہنچتا ہے اور ترکیہ حکومت باکو سے صہیونی حکومت کو تیل فراہمی کے عوض فی بیرل اسّی سینٹ وصول کرتی ہے۔تجارتی روابط کے علاوہ صہیونی و امریکی حکومت اور ترکیہ کے درمیان دفاعی معاہدے بھی شامل ہیں۔ ترکیہ ناٹو کا حصہ ہے، اس لئے وہ ناٹو کی سیاست کے خلاف نہیں جاسکتا۔ اس کا اندازہ ترکیہ سرکار کے بیانات سے بھی لگایا جاسکتا ہے، کیونکہ اب تک ترکیہ نے غزہ کی حمایت کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ اردوگان گذشتہ بیس سالوں سے ترکیہ کے اقتدار پر مسلط ہیں۔ انہیں استعمار کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اس حمایت کے بدلے اردوگان نے خطے میں اسرائیل کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ترکیہ وہ پہلا مسلمان ملک ہے، جس نے 1949ء میں صہیونی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کیا تھا اور 1950ء میں صہیونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار کئے تھے۔ جدید ترکیہ کا بانی مصطفیٰ کمال اتاترک استعمار کا آلۂ کار تھام جس نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد ترکیہ میں لادینیت اور مغربی تمدن نے پائوں پسارنے شروع کئے اور آج ترکیہ مغربی تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہے۔ اردوگان جو خلافت عثمانیہ کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہیں، درحقیقت مصطفیٰ کمال اتاترک کے نقش قدم پر ہیں۔ انہوں نے عوام کو فریب دینے کے لئے وہی حکمت عملی اختیار کی ہے، جو مصطفیٰ کمال نے اپنائی تھی۔ لیکن اب اردوگان کا دُہرا کردار بے نقاب ہوچکا ہے اور ترکیہ کے عوام ان کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ ترکیہ کے لوگ صہیونی حکومت سے تعلقات نہیں چاہتے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اردوگان کب تک عوام کی ناراضگی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ یوں بھی اب انہیں اقتدار گنوانے کا خوف نہیں ہے، کیونکہ یہ اردوگان کا آخری دور ہے، لیکن اردوگان کو ہمیشہ "گفتار کا غازی" اور عالم اسلام کا خائن کہا جائے گا۔

اگر ان میں ذرا بھی اسلامی حمیت موجود ہے تو انہیں فوراً صہیونی حکومت سے تمام تعلقات کو ختم کرنا ہوگا۔ یہ مطالبہ ہم تنہا اردوگان سے نہیں کرسکتے بلکہ اس میں دیگر مسلمان ملک بھی شامل ہیں، جو اب تک صہیونیت نوازی سے باز نہیں آئے۔ عوام کو ان تمام خائن چہروں کو پہچاننا ہوگا، جو ایسی صورتحال میں عالم اسلام کے مسائل کو نظرانداز کرکے استعماری طاقتوں کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ جب تک مسلمان بیدار نہیں ہوں گے، اردوگان جیسے لیڈر ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے رہیں گے۔ اردوگان کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ استعمار نے ان ملکوں کو بھی ملبے میں بدل دیا، جن کے حکمران اس کے چشم و ابرو کے اشارے پر ناچتے تھے۔ عراق اور افغانستان کی بربادی سے تمام مسلم حکمرانوں کو سبق لینا چاہیئے۔ محمد مرسی کا حشر سب کے سامنے ہے۔ ان کی معزولی میں بھی استعماری سازشیں شامل تھیں اور آج مصر پر استعمار نواز سیاست مدار حکومت کر رہے ہیں۔  یہی حال 2011ء میں معمر قذافی کا ہوا۔ اگر مسلم حکمرانوں نے اسی طرح صہیونیت نوازی جاری رکھی تو بہت جلد ان کا حشر بھی گذشتہ سیاست مداروں سے بدتر ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 1173286
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش