تحریر: محمد مہدی
(چیئرمین انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ)
غزہ اور لبنان کے حوالے سے سعودی عرب میں منعقدہ کانفرنس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عبّاس عراقچی کا دورہ پاکستان، پاکستان کیلئے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا تھا۔ اس دورے میں ان سے ملاقات کا موقع میسر آیا۔ ویسے تو پاکستان اور ایران کی ہمسائیگی اور باہمی مفادات کے متعدد امور پر یکجا ہونے کے سبب ایران کی جانب سے جب کبھی اس سطح کی اعلیٰ قیادت پاکستان کا دورہ کرتی ہے تو اس کے اثرات اور مقاصد کا تجزیہ کرنا اہم ہی ہوتا ہے، مگر اس بار تو غزہ، لبنان پر اسرائیلی مکمل جارحیت اور براہ راست ایران سے تصادم کی کیفیت کے باعث اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا ہے کہ اس وقت ایران کی قیادت معاملات پر کیا نقطہ نظر اختیار کئے ہوئے ہے۔ جب ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی تو اس وقت تک امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سامنے نہیں آئے تھے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ اگلی امریکی انتظامیہ کس کی ہوگی اور وہ مختلف امور پر کیا حکمت عملی طے کرے گی۔
مگر ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات کی ایران کیلئے کوئی اہمیت نہ ہونے کے مؤقف کو اپنایا کہ ایران کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ امریکہ میں کون اقتدار سنبھالتا ہے اور کون شکست کا منہ دیکھتا ہے۔ ایران کیلئے ان دونوں میں سے کسی کا بھی برسر اقتدار آنا ایک ہی معنی رکھتا ہے کہ وہ دونوں ہی ایران سے مخاصمت کی پالیسی اختیار کرینگے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے اسرائیل ایران حالیہ سخت کشیدگی اور اس آگ کے ممکنہ پھیلاؤ کے حوالے سے کہا کہ ایران اس بات کو اچھی طرح سے جانتا ہے کہ جنگ میں اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے حوالے سے تیاری مکمل ہے یا نہیں۔ ایران اسرائیل سے ممکنہ جنگ کے حوالے سے ہر طرح کی تیاری مکمل کرچکا ہے اور اگر اسرائیل نے کوئی حماقت کی تو ایسی صورتحال میں ایران اس کو سخت ترین جواب دینے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ انہوں نے ایران کی اصل طاقت ان شہداء کو قرار دیا، جو اپنے ملک کے دفاع کیلئے اپنی جانوں کو نثار کرچکے ہیں۔
ایران کے حوالے سے اس تصور کو بھی انہوں نے رد کیا کہ ایران عالمی سطح پر تنہا ہے۔ ایرانی صدر عنقریب ماسکو کا دورہ کرنیوالے ہیں اور اس دورے میں سب سے اہم پیشرفت،جس کی توقع کی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ ایران اور روس دفاعی تعاون کے حوالے سے ایک پچيس سالہ معاہدے پر دستخط کر دیں گے اور یہ معاہدہ اسی نوعیت کا ہوگا، جیسا کہ ایران اور چین کے درمیان چند سال قبل ہوچکا ہے۔ پھر ایران اس ساری صورتحال میں پاکستان کے کردار سے بہت خوش ہے۔ پاکستانی حکومت اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کسی لگی لپٹی کے بغیر غزہ، لبنان کے معاملات کیساتھ ساتھ ایران کے حوالے سے جو مؤقف اختیار کیا، وہ درحقیقت ان کی توقعات سے بھی زیادہ رہا۔ پھر ایران اور سعودی عرب کے معاملات کو بھی بہتر کرنے کی غرض سے بہت کاوشیں کی جا رہی ہیں۔
امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی نامزدگی کیساتھ ہی عرب دنیا میں یہ احساس جاگزیں ہوگیا تھا کہ ٹرمپ جیت گئے تو ان کی پالیسی بہت غیر معمولی ہوسکتی ہے۔ کوئی ایک ماہ قبل کی بات ہے کہ میں نے اپنے ایک عرب دوست سے یہ سوال کیا کہ خلیج فارس کے ممالک کے وزرائے خارجہ نے دوحہ میں مشترکہ طور پر ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات کے محرکات کیا تھے؟ ایران کو تو اسرائیل کے ساتھ براہ راست تصادم کا خطرہ ہے، مگر اس موقع پر عرب دنیا کا کیا مسئلہ ہے۔ دوست مسکرایا، مسئلہ ایک اور بھی بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور وہ ٹرمپ کی ممکنہ کامیابی ہے۔ عرب دنیا ابھی تک ٹرمپ کے اس عوامی خطاب کے اثر سے باہر نہیں نکلی کہ جس میں اس نے سعودی بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہم آپ کی حفاظت نہ کریں تو آپ دو ہفتے بھی اقتدار میں نہیں رہ سکتے۔
عوامی سطح پر امریکہ کے صدر کا ایسا بیان بہت بڑا دھچکا تھا اور اسی سبب سے چین کو یہ موقع دستیاب ہوا کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات بحال کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ عرب دنیا کسی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے اپنی تیاری مکمل کر رہی ہے کہ ہم بھی تنہا نہیں۔ اسی لئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے گزشتہ ہفتے کہا کہ ’’ہم ایرانیوں کیساتھ بہت واضح اور ایماندارانہ بات چیت کر رہے ہیں‘‘ اور بظاہر لگتا ہے کہ اس اخلاص کا کچھ نہ کچھ مثبت اثر ہو رہا ہے۔ ریاض میں مسلمان ممالک کی کانفرنس کے انعقاد کے وقت ہی سعودی عرب کی آرمڈ فورسز کے سربراہ کی تہران موجودگی اور ایرانی آرمی چیف سے ملاقات، پھر ایران کی جانب سے بحری مشقوں میں شمولیت کی سعودی عرب کو دعوت اچھے دنوں کی نوید سنا رہی ہے۔
اہم ترین امر یہ ہے کہ ریاض کانفرنس میں اپنی افتتاحی گفتگو میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمّد بن سلمان نے ایران کے حوالے سے کہا کہ ’’ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو مجبور کرے کہ وہ ایران کی خود مختاری کا احترام کرے اور اس کی سرزمین پر حملہ نہ کرے۔‘‘ سعودی عرب کی جانب سے ایسا مطالبہ واضح پیغام ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کچھ برف تو پگھلی ہے اور یہ پیغام صرف اسرائیل ہی کیلئے نہیں بلکہ اس کے مخاطب دوسرے بھی ہیں۔ اگر غزہ اور لبنان میں جاری اس بدترین نسل کشی کے وقت یہ دونوں ممالک اپنے اختلافات کو بامعنی مذاکرات کے ذریعے حل کر لیں اور علاقائی بالادستی کی بجائے مشترکہ مؤقف کی جانب بڑھیں، حماس، حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں کے امور کو نیک نیتی سے طے کرلیں تو بہت تگڑا مؤقف دیتے ہوئے صرف غزہ اور لبنان پر ہی اسرائیلی جارحیت کو وہیں روک دینگے بلکہ ایران اور سعودی عرب کی جانب بڑھتے خطرات کو بھی مشترکہ طور پر رفع کیا جا سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ممالک کتنی معاملہ فہمی سے کام لیں گے۔