1
2
Tuesday 12 Nov 2024 21:30

نظامِ تعلیم میں تفتیشی طریقہ کار کی اہمیّت

نظامِ تعلیم میں تفتیشی طریقہ کار کی اہمیّت
تحریر: نذر حافی

تعلیم کے تفتیشی طریقہ کار کو اصطلاح میں انکوائری میتھڈ کہتے ہیں۔ یہ میتھڈ دراصل سوالات تیار کرنے، معلومات اکٹھا کرنے، ان کا تجزیہ کرنے اور ان سے نتائج اخذ کرنے کا عمل ہے۔ استفهام، تفتیش یا انکوائری کی روش کسی بات کو گہرائی میں جا کر سمجھنے یا جاننے کیلئے اپنائی جاتی ہے۔ [1] اس طریقہ کار میں درس کے متن کے مطابق یا موضوع کے دائرے اور مخاطب کی سطح کو دیکھ کر سوالات کی منصوبہ بندی کرنا، طلباء کو سوچنے، جستجو کرنے اور تلاش کرنے پر ابھارنا، تدریسی مواد کی ایسے ڈیزائننگ کرنا کہ طلباء کسی نظریئے پر سوال اٹھا سکیں، سوال کرنے اور جواب دینے کی حکمت عملی کا نقشہ بنانا اور درست سوال کو تشکیل نیز درست جواب کو تشخیص دینا، یہ سب شامل ہے۔ ایک جہت سے درست سوال درحقیقت درست جواب سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔

اگر طالب علم میں سوال قائم کرنے، سوال اٹھانے اور درست انداز میں سوال بیان کرنے کی صلاحیّت پیدا ہو جائے تو وہ  بطورِ خودکار یعنی خود بخود علم کی وادی میں غوطہ زن ہو جاتا ہے اور درس نیز مطالعہ و مباحثہ اُس کیلئے دماغی لذّت اور روحانی خوشی کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان کا نیشنل کریکلم فریم ورک بھی Inquiry method (تفتیشی طریقہ کار) کو  بطورِ روش بیان کرتا ہے۔ [2] انکوائری میتھڈ سے مراد تدریس اور سیکھنے و سکھانے کے دوران استفسار و استفهام یعنی تفتیش کے طریقہ کار سے استفاده کرنا ہے۔ فریم ورک کے مطابق:
"Inquiry method is a process of framing questions, gathering and analysing information and drawing conclusions from it ;"

دینی تعلیم میں تفتیشی طریقہ کار کی اہمیّت
دینی تعلیم میں قرآن مجید کو بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن کریم کے نقطہ نظر سے سوال و جواب کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے سوره نحل کی آیت ۳۳ ہی کافی ہے۔ اس آیت میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا یہ کافر اس بات کے منتظر ہیں کہ فرشتے ان کے پاس جان نکالنے آئیں یا تمہارے پروردگار کا حکم عذاب آپہنچے۔ اسی طرح ان لوگوں نے کیا تھا، جو ان سے پہلے تھے اور الله نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ وه خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔؟ [3 تفتیش اور استفهام پر مبنی سوالات جاننے اور سمجھنے کے لئے کئے جاتے ہیں، قرآن مجید میں بطورِ نمونہ ایسے کئی سوالات موجود ہیں۔[4] بعض اوقات تفتیش فقط کسی سے اقرار لینے کیلئے کی جاتی ہے  اور ایسے سوالات کو استفهام تقریری کہتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں ایسے بہت سارے سوالات موجود ہیں۔

بطورِ نمونہ ملاحظہ فرمائیں: "أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَی" ؛ "بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی، بیشک دی؟[5] اسی طرح “أَکَذَّبْتُم بِآیَاتِی”؛ "کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلا دیا تھا؟[6] یہ بھی ایسے ہی سوالات میں سے ایک ہے: “أَلَیْسَ اللَّهُ بِکَافٍ عَبْدَهُ ”؛ "کیا الله اپنے بندے کو کافی نہیں؟[7] استفهام اقراری میں سوالیہ جملہ مثبت ہوتا ہے اور جواب بھی مثبت۔[8] سوالات کی ایک شکل استفهام انکاری کی بھی ہے۔ استفهام انکاری میں سوال تو منفی ہوتا ہے، لیکن اس کا جواب مثبت ہوتا ہے۔[9] اسی طرح استفهام انکاری کے سوالات بھی بطورِ نمونہ ملاحظہ فرمائیں: “فَهَلْ يُهْلَكُ إِلا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ”؛ "سو کیا اب وہی ہلاک ہوں گے، جو نافرمان تھے؟[10] یہ سوال بھی استفهامِ انکاری ہے: “هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ”؛ "نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے؟[11]

تفتیشی روش کیلئے مذکوره بالا مثالوں کے علاوه بھی سوالات قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ مثلاً مَا الْقَارِعَةُ[12]،  وَ کَمْ مِنْ قَرْیَةٍ أَهْلَکْنَاهَا [13]،  هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ[14]۔  اس سے پتہ چلا کہ سوال و جواب کی تفتیشی روش بھی قرآن مجید کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ قرآن مجید نے انکوائری میتھڈ یا تفتیشی طریقہ تعلیم کیلئے سوالات کی طرح و جواب تیار کرنے اور جواب دینے کا ضابطہ بھی بیان کیا ہے۔[15] قرآن مجید کے مطابق تفتیشی طریقہ تعلیم میں جواب بھی روش مند ہونا چاہیئے۔[16] اور اس کی سوال کے ساتھ  ہم آہنگی ہونی چاہیئے۔[17] مثال کے طور پر چند آیات ملاحظہ فرمائیں: “يَسْأَلُونَكَ عَنِ الاهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ”؛ "پیغمبر لوگ تم سے نئے چاند کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہ گھٹتا بڑھتا کیوں ہے، کہہ دو کہ وه لوگوں کے کاموں کی میعادیں اور حج کے وقت معلوم ہونے کا ذریعہ ہے۔"[18]

اسی طرح یہ آیت بھی اسی قانون کی واضح مثال ہے: “يَسْأَلُونَكَ مَا ذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبِينَ وَ الْيَتَامَى وَ الْمَسَاكِينِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ وَ مَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ”؛ "اے نبی لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ الله کی راه میں کس طرح کا مال خرچ کریں۔ کہہ دو کہ جو چاہو خرچ کرو، لیکن جو مال خرچ کرنا چاہو، وه درجہ بدرجہ اہل استحقاق یعنی ماں باپ کو اور قریب کے رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو، سب کو دو اور جو بھلائی تم کرو گے، الله اس کو جانتا ہے۔"[19] اسی طرح قرآن مجید نے یہ قانون بھی سکھایا ہے کہ اگر سوال جملہ فعلیہ ہو تو جواب بھی جملہ فعلیہ ہونا چاہیئے اور اگر سوال جملہ اسمیہ ہو تو جواب بھی جملہ اسمیہ پر مبنی ہونا چاہیئے۔ [20] مثلاً “وَ ضَرَبَ لَنا مَثَلًا وَ نَسِيَ خَلْقَهُ قالَ مَنْ يُحْيِ الْعِظامَ وَ هِيَ رَمِيمٌ”؛ "اور ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا۔ کہنے لگا کہ جب ہڈیاں بوسیده ہو جائیں گی تو ان کو کون زنده کرے گا؟"[21]

قرآن مجید نے متعدد مقامات پر اس روش کو بیان کیا ہے، جیسا کہ حضرت یعقوب ؑ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ “يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ”؛ "اے بیٹو یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔"[22] تَحَسَّسُوا یعنی اپنے حواس سے کام لو۔[23] یہاں پر حضرت یوسفؑ اور ان کے بھائی کو تلاش کرنے کیلئے حواسِ پنجگانہ کو بروئے کار لانے کا  عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ آیت بتا رہی ہے کہ حواس ویسے تو سب کے پاس ہوتے ہیں، لیکن حقیقت تک پہنچنے کیلئے حواس کو سخت محنت کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔[24]اس اہم مقصد کے حصول کیلئے قرآن مجید نے "اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا" کی روش بتائی ہے۔[25] حضرت یعقوب ؑ نے اپنے بیٹوں کو ایک مشترکہ کام یعنی ٹیم ورک سونپا اور حواسِ خمسہ سے بھرپور کام لینے کا حکم دیا۔ ماہرین تعلیم نے انکوائری میتھڈ کے  کے اہم مراحل کو بھی بیان کیا ہے، جن کو بطورِ خلاصہ یہاں ہم ذکر کئے دیتے ہیں۔

انکوائری میتھڈ کے اہم مراحل
۱۔ استاد ایک موضوع کو منتخب کرکے بچوں کو ابھارتا ہے کہ وه اُس موضوع کے بارے میں سوالات کریں۔
۲۔ بچے اپنے ہی سوالات کی روشنی میں ممکنہ جوابات یا تخمینوں پر ایک مفروضہ تشکیل دیں۔
۳۔  تیسرے مرحلے میں طلباء درست جواب حاصل کرنے کیلئے اپنے ہی مفروضات کو پرکھنے کیلئے کچھ سوالات تشکیل دیں۔ جیسے: ان مفروضات میں سے کون سا مفروضہ درست ہے؟ اگر کوئی سا بھی درست نہیں تو پھر ہمیں ان سوالات کا درست جواب کہاں سے ملے گا؟ جوابات حاصل کرنے کا بہترین طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ جوابات کی تلاش کیلئے  مناسب وقت کون سا رہے گا۔؟ اس بارے میں مشوره کس کس سے کیا جانا چاہیئے؟
۴۔ چوتھے مرحلے میں طلباء جوابات کیلئے معلومات جمع کرنا شروع کر دیتے ہیں،  جیسے کتابیں پڑھنا یا انٹرویوز لینا۔
۵۔ پانچویں مرحلے میں طلباء جمع شده معلومات کو ریکارڈ کے طور پر مرتب کرنا شروع کرتے ہیں۔

۶۔ چھٹے مرحلے میں اساتذه طلباء کو ان کے نتائج کا جائزه لینے اور نتائج اخذ کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
 ۷۔ ساتویں مرحلے میں اساتذه طلباء کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وه اپنے نتائج کو تخلیقی طریقوں (تحریری، زبانی اور بصری) سے بیان کریں۔
۸۔ آٹھویں مرحلے میں اساتذه طلباء کی جمع شده معلومات اور حاصل کرده جوابات کی روشنی میں انہیں عملی کاموں کا مشوره دیتے ہیں۔ 
مثلاً اگر تحقیق اس امر کی متقاضی ہو تو اپنی تحقیق کی روشنی میں حکومت یا کسی ادارے کو خط لکھیں کہ فلاں علاقے میں کوئی یادگار یا مجسمہ بنائیں۔۔۔ وغیره وغیره 
۹۔ نویں مرحلے میں طلباء ایک ایکشن پلان بناتے ہیں اور عمل کو انجام دیتے ہیں۔
۱۰۔ دسویں مرحلے میں کامیاب نتائج اور درپیش چیلنجز پر غور کیا جاتا ہے۔[26]

یہ تفتیشی روش ایسی حکمت عملی ہے کہ جو تعلیمی کامیابیوں کو فروغ دینے کے علاوه، طلباء کو اس قابل بناتی ہے کہ وه کسی موضوع پر مختلف آراء دریافت کرنے کیلئے مناسب رویّہ اور حُلیہ اختیار کریں، معلومات اکٹھی کرنے کیلئے مستند ذرائع  تک رسائی حاصل کریں۔ اسی طرح تفتیشی روش کا ایک اہم مقصد یہ ہے کہ طلباء  سوالات کے جوابات مناسب لب و لہجے میں دیں، اپنے سوالات کو مخاطب کی سطح کے مطابق تیار کریں اور جمع شده معلومات کو پہلے سے بہتر کریں۔ مسئلہ حل کرنے اور بات چیت کی مهارت، نیز ایک ٹیم کے طور پر کام کرنے کا تفتیشی انداز اور طریقہ سیکھیں۔

جمع بندی
حقائق تک رسائی کیلئے سوال و جواب پر مبنی تفتیشی روش سب سے زیاده کامیاب اور موثر ہے۔ لہذا اس روش سے قرآن مجید نے بھی استفاده کیا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کی تعلیم و تربیت کیلئے متعدد انبیائے کرام کے سوالات کو انسانوں کیلئے بیان کیا ہے اور خود بھی سوال پوچھنے کی روش اختیار کی ہے اور انواع و اقسام کے سوالات انسانوں سے پوچھے ہیں۔ تفتیشی طریقہ تعلیم کی بنیاد ہی حواس پر ہے۔ حواسِ خمسہ سے انسان مرحلہ وار سیکھتا ہے۔ اس لئے اُسے مرحلہ وار سوالات اور امتحانات سے گزرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کسی بھی شعبے میں کوئی شخص جس قدر سوالات اور امتحانات سے گزرا ہوُا ہوتا ہے، وہ اُس شعبے میں اتنا ہی پختہ ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
[1] جلال الدّین سیوطی، الاتقان فی علوم القران، ج۳،  ص۲۶۷۔
[2] ایضا ص ۵۸
[3] فتح محمد جالندھری، ترجمه قرآن، سوره نحل ۳۳۔
[4] محمد بن بهادر زرکشی، البرهان فی علوم القران (باحاشیه)، ج۲، ص ۳۲۶-۳۲۷۔
[5] ضحی ۶-۷
[6] نمل ۸۴
[7] زمر ۳۶
[8] میر جلال الدین کزازی، معانی (زیبا شناسی سخن پارسی ۲)، ص۲۱۷۔
[9] احمد نژاد کامل، معانی و بیان، تهران، زوّار، ص۱۰۸۔
[10] احقاف، ۳۵
[11] رحمان، ۶۰
[12] القارعۃ ۱
[13] اعراف-۴
[14] انسان-۱
[15] جلال الدّین سیوطی، الاتقان فی علوم القران، ج۲، ص۳۶۹-۳۷۴۔
[16] علی کمالی دزفولی، قرآن ثقل اکبر، ص ۳۵۷-۳۵۹۔
[17] محمد بن بهادر زرکشی، البرهان فی علوم القران (باحاشیه)، ج۴، ص۴۲۔
[18] بقره ۱۸۹
[19] بقره  ۲۱۵
[20] جلال الدین سیوطی، الاتقان فی علوم القران، ج۲، ص ۳۷۱۔
[21] یس، ۷۸۔
[22] فتح محمد جالندھری، ترجمه قرآن، یوسف ۸۷۔
[23] محمود بن عمر بن احمد زمخشری، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، ج۲،  ص ۵۰۰۔
[24] احرصوا واجتهدوا على التفتيش عنهما، عبد الرحمن بن ناصر بن عبد الله  سعدي، تفسير السعدي تيسير الكريم الرحمن، ص۴۰۴- المكتبة الشاملة
[25] ناصر مکارم شیرازی، برگزیده تفسیر نمونه، جلد ۲، ص ۴۴۵۔
[26] نیشنل کریکلم فریم ورک، ص ۴۲۔
خبر کا کوڈ : 1172249
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ایم ایس قریشی
Pakistan
معاشرے کی اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے تعلیمی نظام کا موئثر و مربوط ہونا از بس لازم و ملزوم ھے، بہت عمدہ اور قابل قدر کاوش ہے، اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرمائے، آمین ثم آمین، یا رب العالمین۔
ہماری پیشکش