تحریر: سید رضی عمادی
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے ایک خصوصی نیوز ٹاک میں انٹرویو دیتے ہوئے مختلف امور پر اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودہ حکومت کی اہم پالیسیوں میں سے ایک مغربی ایشیائی خطے میں موجود مختلف مزاحمتی گروہوں یعنی مزاحمتی بلاک کی حمایت کرنا ہے۔ ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنی گفتگو میں اس مسئلے پر ایک بار پھر تاکید کی اور کہا ہے کہ لبنان اور شام کے سفارتی دوروں کا اہم مقصد اس حقیقت پر تاکید کرنا تھا کہ ایران مزاحمت کی حمایت جاری رکھے گا اور کسی بھی حالت میں اپنے نظریات سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں ایران کی موجودہ حکومت کا ایک اہم ہدف خطے کے ممالک کو صیہونی حکومت کے جرائم اور مجرمانہ اہداف سے آگاہ کرنا ہے۔
ایران کی موجودہ حکومت صیہونی جرائم کے بارے میں آگہی دے کر صیہونی حکومت کے خلاف ایک طرح کی صف بندی اور اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عراقچی نے اپنے بیروت کے سفر کے اہداف کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف ہم آہنگی اور اس کے خلاف متحدہ آواز اٹھا کر اس کی جنگی مشین کو روکنا ہے اور اس کے جرائم کو دنیا کے سامنے آشکار کرنا ہے۔ ایران کی موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کا ایک اور مسئلہ برکس اور شنگھائی تعاون جیسی علاقائی اور ماورائے علاقائی تنظیموں میں اپنا کردار بڑھانا اور اپنی فعال موجودگی سے اس کو ایک بڑے اتحاد میں تبدیل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران، روس اور عوامی جمہوریہ چین جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کو اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے ایک سمجھتا ہے۔
اس سلسلے میں وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ معاہدہ ایک وژن اور ایکشن پلان ہے، جسے مختلف معاہدوں میں تبدیل کیا جانا چاہیئے۔ عباس عراقچی نے اس انٹرویو میں یہ بھی بتایا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان ممکنہ طور پر اگلے ایک یا دو ماہ میں اپنے دورہ ماسکو کے دوران روس کے ساتھ تعاون کی دستاویز پر دستخط کریں گے۔ اپنی حکومت کی خارجہ پالیسی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایک اہم مسئلہ جوہری مذاکرات ہیں۔ وہ مذاکرات جن کی وجہ سے ماضی میں جے سی پی او اے کے نام سے ایک معاہدہ ہوا، جسے ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے سے دستبردار ہو کر بے اثر کر دیا تھا۔
ایران کے صدر مسعود پزشکیان کی حکومت نے ایک بار پھر مغربی ممالک کے ساتھ موجودہ چیلنجز کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے، البتہ ان کا خیال ہے کہ مذاکرات ایک نئے ماحول میں کیے جائیں اور ایک سال کی مدت کے اندر اس کا نتیجہ نکلنا چاہیئے۔ سید عباس عراقچی نے اس تناظر میں کہا کہ اب بھی اگر جوہری مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو ایٹمی معاہدے جے سی پی او اے کی سابقہ خصوصیات باقی نہیں رہیں گی اور نہ ہی اسے پہلی والی شکل میں بحال کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے ایک حوالہ اور ذریعہ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور ہمیں یہ کرنا چاہیئے۔ سید عباس عراقچی کا کہنا ہے کہ ہمیں یقینی طور پر ایک معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کرنے ہوں گے۔ بہرحال اگر نئے مذاکرات شروع بھی ہوتے ہیں تو سب کے پاس محدود موقع ہوگا، کیونکہ اکتوبر 2025ء میں سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 ختم ہو جائے گی۔