0
Thursday 14 Nov 2024 17:19

امتحانوں کے دن ہیں

امتحانوں کے دن ہیں
تحریر: سید تنویر حیدر

یمن کی مسلح افواج نے امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہاز ابراہم لنکن (CVN-72) پر پیشگی حملہ کرکے اس جہاز کو خود پر حملہ کرنے سے روک دیا۔ اس سے ایک بات بہرحال ثابت ہوئی کہ بعض اوقات حملہ ہی حملے کو روکنے کا وسیلہ ٹھہرتا ہے۔ یہ جنگی بحری جہاز دنیا میں امریکہ کی دفاعی طاقت ، جو درحقیقت اس کی جارحانہ طاقت ہے، کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسے ہم ایک سمندری دیو بھی کہ سکتے ہیں جو کمزور دل ممالک کو ڈرانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ البتہ یمنیوں کی نظر میں یہ ایک ایسی مرغابی ہے جس کے شکار کے لیے وہ ہمیشہ تاک میں رہتے ہیں۔ کچھ روز قبل امریکہ اور برطانیہ کی فضائیہ نے یمن پر جو بمباری کی تھی، اہل یمن نے ہمیشہ کی طرح اس کا جواب دینے میں دیر یا تاخیر نہیں کی اور اس دیوہیکل جہاز پر بغیر کسی خوف و تردد کے کئی میزائلز اور ڈرونز داغ دیئے۔

امریکہ جیسی طاقت کا توازن بگاڑنے والا یمنیوں کا یہ اقدام امریکہ کو کسی طور قبول نہیں ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے یمن پر ایک بھرپور حملہ کرے۔ گویا آنے والے ایام میں ہم امریکہ اور یمن کے مابین محاز کو زیادہ گرم ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایسے میں ہے جب کہ دوسری طرف ایران نے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف ”وعدہ صادق 3“ کا اعلان کر رکھا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اب کی بار اقتدار کی کرسی پر اپنے جس چہرے کے ساتھ براجمان ہونے کی تیاری کر رہے ہیں، لگتا ہے ان کا وہ چہرہ ان کے پہلے والے چہرے سے زیادہ بھیانک ہوگا۔ انہوں نے اپنی کابینہ میں جن افراد کو شامل کیا ہے وہ ایران کے ساتھ زیادہ مخاصمانہ رویہ رکھتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ جنگوں کو ختم کریں گے وہ شاید خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا اس وقت دنیا میں اصل اور سب سے بڑا دشمن ایران اور صرف ایران ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بس یہ چاہتے ہیں کہ وہ یوکرائن کے محاذ پر صرف ہونے والی امریکہ کی توانائیوں کو ایران اور اس کے زیر اثر مقاومتی قوتوں کے خلاف استعمال کریں۔ ٹرمپ کی کامیابی کا پاکستان کی ایک سیاسی پارٹی نے بھی جشن منایا۔ اس پارٹی کو امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان کے لیڈر کی رہائی کا سامان پیدا کریں گے۔ اپنے مطالبے میں جان ڈالنے کے لیے اس جماعت نے اپنے ایک جلسے میں امریکہ کے جھنڈے بھی لہرائے۔ ٹرمپ کی کامیابی سے پیدا ہونے والی اس نئی صورت حال میں عمران خان صاحب نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں ایک فیصلہ کن احتجاج کی کال دے دی ہے۔ امریکہ اور یمن کے مابین بگڑتی ہوئی صورت حال کا اثر عمران صاحب کی سیاست پر بھی پڑے گا۔

خان صاحب نے اپنے پچھلے دور اقتدار میں سعودی عرب کے دباؤ کے باوجود یمن کے خلاف اپنی افواج کو استعمال ہونے سے بچا لیا تھا البتہ انہوں نے یمنیوں کے خلاف سعودی عرب کی جارحیت کی حمایت ضرور کی تھی اور حوثیوں کو باغی کہتے تھے لیکن اب معاملات مختلف ہیں۔ ٹرمپ اگر عمران خان کی رہائی کے لیے پاکستان کی حکومت پر دباو ڈالتے ہیں تو یقیناً عمران خان کو بھی اس کے بدلے میں یمن پر امریکہ کی جارحیت کی حمایت کرنا پڑے گی اور اگر انہیں دوبارہ اقتدار مل گیا تو انہیں امریکہ کو ایران کے خلاف جنرل مشرف کی طرح لاجسٹک سپورٹ بھی دینی پڑے گی۔ ممکن ہے عمران خان اس شرط پر اپنی رہائی قبول نہ کریں لیکن اس حوالے سے زمینی حقائق جو کہتے ہیں انہیں زیادہ وزن دینا پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 1172557
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش