تحریر: سید اسد عباس
رانا ثناء اللہ مسلم لیگ نون کے ایک اہم سیاسی راہنماء اور امیدوار ہیں، جو فیصل آباد سے الیکشن لڑتے ہیں۔ وہ متعدد مرتبہ مسلم لیگ (ن) کی سیٹ پر ایم این اے اور وزیر بنے۔ پہلے وہ پیپلز پارٹی کا حصہ تھے، تاہم اپنے حلقے کے ووٹرز، کچھ بنیادی نظریات یا برادری کی روایات کے سبب انھوں نے پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی اور ان کے اہم راہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔ رانا ثناء اللہ پنجاب کے وزیر قانوں، ملک کے وزیر داخلہ اور دیگر کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ رانا صاحب بنیادی طور پر ایک کاروباری سیاست دان ہیں، جن کا ووٹ بینک تکفیری اور شدت پسند مذہبی عناصر پر مشتمل ہے۔ اپنے اسی ووٹ بینک کی وجہ سے رانا صاحب کی ہمدردیاں تکفیری تنظیم، اس کے قائدین، ان کے عقائد کے ساتھ ہیں۔حالانکہ ذاتی طور پر رانا صاحب ایک لبرل شخص ہیں، اپنی بیٹی کے ڈانس کی ویڈیوز خود شیئر کرتے ہیں اور اس پر داد و تحسین سمیٹتے ہیں۔
رانا ثناء اللہ جیسے بہت سے کردار پاکستانی سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں، جو اپنے ووٹ بینک، کچھ بنیادی عقائد و نظریات یا برادری کی روایات کے سبب ایک خاص سیاسی و مذہبی شناخت کے حامل ہیں۔ انسانی معاشرے، بالخصوص جمہوری معاشروں میں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ عالمی سیاست میں اس کی بہترین مثال امریکی صدور اور اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک کاروباری شخصیت ہیں، تاہم ان کے کچھ بنیادی عقائد اور ووٹ بینک نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خاص شناخت عطا کی ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیاں، اقدامات اور فیصلے اس خاص تشخص سے باہر نہیں نکل سکتے۔ امریکا مسیحی اکثریت کے حامل ممالک میں سے ایک ہے۔ امریکی مسیحیوں میں پروٹسٹنٹ اکثریت میں ہیں۔ پروٹسٹنٹ مسیحیوں کی ایک شاخ اوینجیلیک امریکا کے مسیحیوں کا بڑا حصہ ہے، جس کا یورپ اور امریکی سیاست میں بہت اہم کردار رہا ہے۔
رانا ثناء اللہ کی مانند ڈونلڈ ٹرمپ خواہ کتنے ہی لبرل ہوں، وہ اوینجیلکلز اور پروٹسٹنٹ مسیحیوں کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے۔ 9 نومبر 2024ء یعنی بحیثیت امریکی صدر اپنے انتخاب کے چند روز بعد ڈونلڈ ٹرمپ اوینجیلیکلز کے چرچ "CFMI" (کرسچینیٹی مشنری فیلوشپ انٹرنیشنل) میں گئے، جہاں انھوں نے بائبل تھام کر خطاب کیا۔ یہ خاص بائبل کنگز جیمز ورژن بائبل کہلاتی ہے۔ جس کا نام "Holy Bible God Bless USA" ہے۔ ٹرمپ نے اس بائبل کو تھام کر خطاب کرتے ہوئے کہا: "مذہب اور عیسائیت اس ملک سے غائب ہونے والی سب سے بڑی چیزیں ہیں اور ہمیں اس کو واپس لانا ہے۔ ہم ان دونوں کو جلد از جلد واپس لائیں گے۔ ہم نے اپنے ملک میں مذہب کھو دیا ہے، تمام امریکیوں کو اپنے گھروں میں بائبل کی ضرورت ہے۔ یہ کتاب ہمیں یاد دلاتی ہے کہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانا ہے، ہمیں مذہب کی واپسی کی ضرورت ہے، مذہب غائب ہے لیکن یہ واپس آنے والا ہے اور مضبوط واپس آئے گا۔ مسیحی محاصرے میں ہیں، ہمیں متن کی حفاظت کرنی چاہیئے۔ ہمیں ایک عظیم قوم بننے کے لیے مسیحیت کو واپس لانا ہوگا۔ ہمارے آباؤ اجداد نے "جوڈو ۔ کرسچیین" بنیادوں پر امریکہ کی تعمیر کی اس بنیاد پر حملہ ہو رہا ہے۔"
ٹرمپ کے خطاب کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا، جیسے وہ بائبل کی مارکیٹنگ کر رہے ہیں۔ بائبل کے ایک امریکی مبصر نے اس تقریر کے بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا، ہم اگرچہ مسیحیت کو اپنا دین سمجھتے ہیں، امریکا سے محبت کرتے ہیں، تاہم بائبل کی ایک خاص کتاب کی یوں مارکیٹنگ کرنا حیران کن ہے۔ مبصر کا کہنا تھا کہ اس بائبل میں امریکہ کا آئین، آزادی کی قرارداد، بل آف رائٹس اور امریکا سے وفاداری کا حلف نامہ موجود ہے، نیز اس بائبل پر امریکا کا جھنڈا چھپا ہوا ہے۔ مسیحی مبصر کے مطابق دین اور سیاست کو یوں یکجا کرنا درست نہیں ہے۔ امریکا ہمیں بہت پیارا ہے لیکن مذہبی دستاویز اور امریکی دستاویزات کو یکجا کرنا درست نہیں ہے۔ ان دونوں کا الگ الگ مقام ہے۔ کیا درست ہے اور کیا غلط، یہ تو مسیحی جانیں یا امریکی شہری، ہم تو ٹرمپ کے ووٹ بینک کے اس پر اثرات کو با آسانی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ٹرمپ کی صدر بننے کے بعد دوسری تقریر ایک چرچ میں ہوئی، جس میں بائبل کو تھام کر اس نے امریکا میں عیسائیت کو واپس لانے یعنی "دین کے احیاء" کی بات کی۔
اگر حقیقی مسیحی تعلیمات کا احیاء کیا جائے تو یہ ایک خوش آئند بات ہے، تاہم یہاں اوینجیکلزم کے احیاء کی بات ہو رہی ہے۔ اوینجیلکلزم کیا ہے، اس کے لیے میری
اسلام ٹائمز پر ہی شائع ہونے والی دو تحریروں "
اوینجیلیکل، صہیونی مسیحیت۔۱" نیز "
اوینجیلیکل، صہیونی مسیحیت۔۲" سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اوینجیلیکل امریکا میں مسیحیوں کا اکثریتی فرقہ ہے، ان کو مسیحیوں میں سے روشن خیال لوگ سمجھا جاتا ہے۔ یہ خواتین کو بھی پادری بنانے کے قائل ہیں، اس فرقہ کی مختلف شاخیں تیزی سے دنیا میں پھیل رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اوینجیلیکلز کی دنیا میں تعداد 619 ملین کے قریب ہے۔ اوینجیلک بنیادی طور لاطینی لفظ ہے، جس سے مراد خوشخبری ہے۔ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق فقط امریکا میں اوینجیلیکلز کی تعداد تقریبا 70 ملین تھی۔ ٹیکساس اس فرقے کا مرکز ہے۔
اوینجیلیکز بائیبل کی پیشنگوئیوں کے ذیل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام یعنی مسیح موعود کے منتظر ہیں۔ ان کا یہی انتظار اور اس کے لیے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عسکری وسائل کی فراہمی یعنی راہ کو ہموار کرنا اوینجیلیکلز کو صہیونی مسیحی بناتا ہے۔ صہیونی مسیحی یعنی اوینجیلیکلز مذہبی اور عقیدتی طور پر اسرائیلی ریاست کے قیام کے حامی اور اس کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو ظہور مسیح علیہ السلام کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں۔ خواہ یہ رکاوٹ فلسطینیوں کے گھر ہوں، لبنانیوں کے اسرائیل پر حملے ہوں، ایران کا ان دونوں کو مدد مہیا کرنا ہو یا کچھ اور اوینجیلیکل مسیحی ان سب رکاوٹوں کو اسرائیلی ریاست کے قیام کی راہ سے دور کرنے کو اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ ہم مذہبی مسیحیوں کو ان کی ظاہری وضع قطع سے نہیں پہچان سکتے ہیں۔ پینٹ کوٹ میں ملبوس، کلین شیو انگریز مرد اور سکرٹ میں پھرتی خاتون جو شراب بھی پیتے ہوں، کٹر مسیحی ہوسکتے ہیں۔ ان کے ہاں عمامہ، داڑھی، ٹوپی، ٹخنوں سے اوپر شلواز، پگڑی، برقع یا سکارف مذہبی ہونے کی نشانیان نہیں ہیں۔
یورپ میں مقیم میرے ایک دوست نے مجھے بتایا: یورپ میں زنا، جوئے، سود وغیرہ پر پابندی نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی ترویج کی جاتی ہے، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست اس سے روکتی نہیں اور صرف شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے۔ یورپ کے ایوینجیلیکل مسیحی کو یہ سب دیکھ کر غصہ آتا ہے تو وہ یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتا ہے کہ اسے حضرت یسوع مسیح کے ظہور کا انتظار کرنا چاہیئے۔ یہاں انتظار سے مراد ظہور میں تعجیل کے لیے کوشش کرنا لیا جاتا ہے۔ یوں منکرات کے خلاف پیدا ہونے والا غصہ بھی ظہور کی راہ ہموار کرنے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور ایوینجیلیکل مسیحی زیادہ سرگرمی سے فلسطین سے غیر یہودی لوگوں کے اخراج کی کوشش کرتا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ لبرل قوانین سب سے پہلے مغرب کے انہی حصوں میں لاگو ہوئے، جہاں ایوینجیلیکل مسیحیت کا غلبہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول عام ایوینجیلیکل نوجوان گناہوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، اگر کوئی گناہ کرے تو نادم ہوتا ہے۔ جو چرچ کے زیادہ قریب ہو، وہ شادی سے پہلے جنسی تعلق نہیں بناتا۔ چنانچہ نوجوانی میں شادیاں بھی ہو رہی ہیں، لیکن منکرات کے خلاف اس کا غصہ ظہورِ مسیح کی راہ ہموار کرنے، یعنی اسرائیل کے دائیں بازو کی حمایت کرنے اور چندہ دینے، پر خرچ ہوتا ہے۔ یوں ایک لوہار کی، سو سنار کی، کے مطابق وہ ظہور کروا کر لوہار کی ایک ضرب سے سب منکرات کے خاتمے کا ماسٹر پلان بنائے ہوئے ہے۔ اب اس پلان میں کتنے فلسطینی مرتے ہیں، اس کی بلا سے۔
پروفیسر ڈان ویگنر نے اپنی کتاب "Anxious for Armageddon" میں لکھا: "صہیونی مسیحیت پروٹسٹنٹ مسیحیت کی ایک تحریک ہے، جو جدید اسرائیلی ریاست کے قیام کو بائیبل کی پیشنگوئی کی تکیمل سمجھتی ہے، لہذا اس کی بلامشروط معاشی، اخلاقی، سیاسی اور مذہبی حمایت ضروری ہے۔" امریکی اور یورپی اوینجییلیکلز اسرائیل کو لاکھوں ڈالر کی امداد کرتے ہیں، اوینجیلیکل امریکیوں کی تنظیمیں جو رقوم اسرائیل کو بھیج رہی ہیں، وہ امریکی حکومت کی جانب سے اسرائیل کو ملنے والی امداد سے بہت زیادہ ہے۔ ہم جب تک امریکہ اور یورپ میں موجود رانا ثناء اللہ جیسی شخصیات اور ان کے نظریات کو پورے طریقے سے سمجھ نہیں لیتے، اس وقت تک ہم امریکہ اور یورپ کی خارجہ پالیسی کو درست طور پر نہیں سمجھ سکیں گے، نہ ہی اس کا مقابلہ کرسکیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موضوع پر پی ایچ ڈی کی جائے، امریکی اور یورپی فیصلہ ساز اداروں پر اوینجیلیکل ووٹ بینک کے اثرات کو سمجھا جائے، تب ہم حالات کا درست تجزیہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ اسرائیلی ریاست کا مسئلہ فقط سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے مذہبی عقائد موجود ہیں اور یہ مذہبی عقائد یہودی نہیں بلکہ مسیحی ہیں۔ حقیقی مذہبی یہودی تو اسرائیلی ریاست کو ناجائز ریاست کہتے ہیں۔ ان کے مطابق تو یہودیوں کو "مسایا" کی آمد سے قبل مذہب کی بنیاد پر کسی ریاست کے قیام کی اجازت ہی نہیں ہے۔ اسرائیل بنیادی طور پر سیکولر یہودیوں نے بنایا، مذہبی یہودی اس ریاست کے خلاف تھے اور ہیں۔ اصل مسئلہ صہیونی مسیحیوں یعنی اوینجیلیکلز کا ہے، جن کے بارے میں ہم اکثر کہتے ہیں کہ اگر امریکہ کی پشت پناہی نہ ہو تو اسرائیل ایک دن بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ یہ حقیقت ہے، تاہم اس حقیقت کے پیچھے سیاسی سے زیادہ مذہبی وجوہات ہیں، جن کو سمجھے بغیر اس جنگ میں وارد ہونا لاعلمی کی جنگ ہے۔