1
Thursday 14 Nov 2024 16:28

لبنان کی جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کا ممکنہ انجام

لبنان کی جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کا ممکنہ انجام
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی
 
لبنان پر صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت کو چار ماہ جبکہ زمینی حملے کو دو ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز میں صیہونی حکمرانوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کا مقصد حماس کی فوجی اور سیاسی طاقت کا خاتمہ، غزہ کی جانب سے اسرائیل کو درپیش خطرات کا مکمل خاتمہ اور اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی ہے، لیکن 14 ماہ گزر جانے کے بعد وہ ان میں سے کوئی بھی مقصد حاصل کرنے میں ناکامی کا شکار رہے ہیں۔ لہذا صیہونی رژیم کے حامیوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ جنگ سے پہلے مطلوبہ اہداف کا اعلان نہ کیا کرے تاکہ ان کے عدم حصول کی صورت میں مخالفین کی جانب سے شکست کا دعوی نہ کیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ صیہونی حکمرانوں نے لبنان پر جارحیت کے آغاز میں اپنے اہداف کا اعلان نہیں کیا تھا۔ لبنان پر صیہونی جارحیت کا آغاز اس وقت ہوا جب بیروت میں حزب اللہ لبنان کے اعلی کمانڈر فواد حسن شکر کی ٹارگٹ کلنگ انجام پائی۔
 
لبنان کے بارے میں صیہونی حکمرانوں کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ ہر حملے کے بعد اس کے اہداف کا اعلان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب لبنان میں پیجر دھماکے ہوئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ اس کا مقصد حزب اللہ لبنان کی فوجی صلاحیتوں کو نقصان پہنچانا تھا، یا جب لبنان کے خلاف زمینی جارحیت کا آغاز ہوا تو یہ اعلان کیا گیا کہ اس کا مقصد شمالی مقبوضہ فلسطین سے نقل مکانی پر مجبور یہودی آبادکاروں کو ان کے گھر واپس لانے کا راستہ ہموار کرنا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکی اور صیہونی حکمران غزہ جنگ سے پہلے ہی لبنان کے خلاف جنگ کو فیصلہ کن جنگ قرار دے کر اس میں کامیابی پر زور دے رہے تھے۔ اسرائیل ایک طرف میڈیا جنگ اور پروپیگنڈے کے ذریعے یہ تاثر دینے میں مصروف ہے کہ حزب اللہ لبنان کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کر چکا ہے جبکہ دوسری طرف جنگ جاری رکھے ہوئے ہے اور جنگ بندی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔
 
لبنان پر زمینی جارحیت سے پہلے اسرائیلی فوج کی ویب سائٹ نے اعلان کیا تھا کہ تین ہفتے کے اندر اندر دریائے لیتانی کے ساتھ ساتھ لبنان کے 800 مربع کلومیٹر علاقے پر فوجی قبضہ کیا جائے گا اور آئندہ ایک سال تک اس قبضے کو مزید مستحکم کر دیا جائے گا۔ لیکن اب لبنان پر صیہونی فوج کے زمینی حملے کو دو ماہ گزر چکے ہیں جبکہ شدید فضائی بمباری اور پانچ ڈویژن فوج کے باوجود اسرائیلی فوج زیادہ سے زیادہ 1 یا ڈیڑھ کلومیٹر لبنان کے اندر داخل ہوئی ہے اور اس حد تک بھی اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ پائی اور فوراً پسپائی پر مجبور ہو جاتی ہے۔ لبنان کے جنوبی سرحد سے دریائے لیتانی کا فاصلہ 30 کلومیٹر ہے۔ لہذا اسرائیل اپنے اعلان کردہ وقت سے 20 گنا زیادہ وقت لگا چکا ہے اور اس دوران پیشقدمی کی رفتار دیکھی جائے تو اسے دریائے لیتانی تک پہنچنے میں 40 ماہ یعنی تین سال سے زیادہ وقت درکار ہو گا۔
 
ان دو ماہ میں اسی حد تک پیشقدمی کے دوران اسرائیلی فوج کو جو جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ خود صیہونی فوج کی رپورٹ کے مطابق اب تک کی زمینی جنگ میں 60 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 400 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان کی رپورٹس کے مطابق اب تک 100 اسرائیلی فوجی ہلاک اور 1200 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ اسی طرح شمالی مقبوضہ فلسطین سے 5 لاکھ یہودی آبادکار نقل مکانی کر کے حیفا اور تل ابیب جا چکے ہیں۔ یوں یہ جنگ نہ صرف شمالی مقبوضہ فلسطین کے جلاوطن آبادکاروں کی واپسی کا باعث نہیں بن سکی بلکہ جلاوطن آبادکاروں کی تعداد میں 8 گنا کے قریب مزید اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف حیفا سے تل ابیب تک کے علاقوں پر حزب اللہ لبنان کے مسلسل میزائل اور ڈرون حملوں نے اسرائیلی معیشت کو شدید نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ لاکھوں یہودی آبادکاروں کا سکون بھی برباد کر رکھا ہے۔
 
لبنان جنگ میں صیہونی رژیم کی شکست کی ایک اور علامت وزیر جنگ یوآو گالانت کی برطرفی ہے۔ اسی طرح شکست کی ایک اور نشانی ایک ماہ جنگ کے بعد شمالی محاذ پر اسرائیلی فوج کی پسپائی ہے۔ گذشتہ تقریباً تین ہفتے سے صیہونی رژیم نے لبنان کی سرحد پر تعینات فوج کا دو تہائی حصہ پیچھے ہٹا لیا ہے تاکہ یوں انہیں حزب اللہ لبنان کے روزانہ کی بنیاد پر انجام پانے والے حملوں کی زد سے بچا سکے۔ فوجی ماہرین کی نظر میں یہ پسپائی زمینی جنگ میں واضح شکست کی علامت ہے۔ 2006ء میں 33 روزہ جنگ کے تجربات کی روشنی میں صیہونی حکمران یہ تصور کرتے تھے کہ اگر حزب اللہ لبنان کے اعلی سطحی رہنماوں اور کمانڈرز کی ٹارگٹ کلنگ کر دی جائے تو وہ میدان جنگ میں صیہونی فوج کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو جائے گی۔ لہذا دو ماہ پہلے حزب اللہ کے دسیوں مرکزی رہنماوں اور کمانڈرز کی شہادت کے بعد اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کا اندازہ تھا کہ انہوں نے حزب اللہ کی 80 فیصد طاقت ختم کر دی ہے۔
 
لیکن میدان جنگ میں جو کچھ ہوا وہ اسرائیلی فوج کی توقعات سے بہت مختلف تھا۔ حزب اللہ لبنان نے بہت تیزی سے اپنے شہید رہنماوں اور کمانڈرز کی جگہ نئے افراد کو تعینات کیا اور یوں اس کے تنظیمی ڈھانچے پر کوئی آنچ نہیں آئی جس کے نتیجے میں جب زمینی جنگ کا آغاز ہوا تو صیہونی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری طرف حزب اللہ لبنان نے اس جنگ میں نت نئے حربے بھی استعمال کیے جن میں دو بدو جنگ، ٹینکوں پر افراد سے حملے اور ٹینک شکن میزائلوں کا استعمال شامل ہے۔ صیہونی فوج کا گمان تھا کہ اس بار وہ دریائے لیتانی تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن حزب اللہ لبنان کے جدید جنگی حربوں نے اس کی یہ آرزو خاک میں ملا دی اور سابق وزیر جنگ یوآو گالانت یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ: "اسرائیلی فوج کمزور نہیں بلکہ حزب اللہ بہت طاقتور ہے۔"
خبر کا کوڈ : 1172554
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش