0
Friday 15 Nov 2024 12:57

فلسطین، ایران و پاکستان مخالف ٹرمپ انتظامیہ

فلسطین، ایران و پاکستان مخالف ٹرمپ انتظامیہ
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

امریکی صدارتی دوڑ میں بائیڈن کے دستبردار ہونے سے ڈیموکریٹس کو جیت کی امید پیدا ہوئی تھی۔ حکومت میں ہونے کے باوجود بائیڈن کے لیے دوسری بار جیت ناممکن تھی اور الیکشن بہرحال یکطرفہ ہوچکا تھا۔ ٹرمپ نے امریکہ کو عظیم بنانے کے نعرے پر الیکشن لڑا، اس کا کل مقدمہ یہی تھا کہ ابھی امریکہ کو ڈیموکریٹس نے تباہ و برباد کر دیا ہے، جسے ٹھیک کیا جانا ضروری ہے۔ ڈیپ سٹیٹ کے تصور کو بار بار دہرایا گیا اور بتایا گیا کہ امریکہ کو مزید طاقتور کیا جائے گا۔ اس نعرے کا جادو چل گیا اور ٹرمپ سات سونگ ریاستوں سے کلین سویپ کرکے امریکہ کے صدر بن گئے۔ سونگ سٹیٹس کی جیت میں وہاں کے مسلم عرب ووٹر نے بنیادی کردار ادا کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بائیڈن کی قیادت میں ڈیموکریٹس کی حکومت نے غزہ میں تباہی مچانے کے لیے جو وسائل فراہم کیے تھے، اس سے یہ ووٹر رنجیدہ تھا۔ ٹرمپ بھی فلسطین دوست نہیں ہے بلکہ عملی طور پر فلسطین دشمن ہے، مگر اس نے جنگ مخالف ہونے کا نعرہ لگا کر عرب اور مسلم ووٹر کو اپروچ کیا اور اس میں کامیاب رہا۔

مسلم اور عرب ووٹر یہ سمجھا کہ شائد اس کے آجانے سے غزہ جنگ رک جائے گی اور لبنان کے خلاف جاری جنگ میں بھی ٹھہراو آجائے گا۔ پاکستانی امریکن ووٹر نے بھی بڑی تعداد میں ٹرمپ کو ووٹ دیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی میں پی ٹی آئی کافی مقبول ہے۔ پی ٹی آئی کو لگا کہ ٹرمپ کے آنے سے عمران خان صاحب کی رہائی ہوسکتی ہے، اسی لیے پی ٹی آئی کے لوگوں نے اس جیت پر کافی خوشی کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی ووٹر بھی غزہ اور لبنان جنگ میں ڈیموکریٹس کے کردار سے نالاں تھا۔ یوں اپنے زعم میں ایک جنگ مخالف شخص کو وائٹ ہاوس میں بھیجا گیا۔ ٹرمپ کی انتظامیہ کی تفاصیل میڈیا پر رپورٹ ہو رہی ہیں، چند اہم ترین ریاستی عہدیداروں کے انتخاب کو دیکھ کر لگتا یہ ہے کہ ٹرمپ نے فلسطین، ایران اور پاکستان مخالف لوگوں کو اہم ترین عہدے دیئے ہیں، جن سے ایرن، پاکستان اور فلسطین کے لیے خیر کی امید نہیں ہے۔

مارکو روبیو کو امریکی سیکرٹری خارجہ کا عہدہ تفویض کیا گیا ہے۔ یہ صدر کے بعد اہم ترین عہدوں میں سے ہے، جو امریکی ریاستی پالیسی کو تشکیل دیتا ہے۔ اس کی پہچان ہی چین، پاکستان اور ایران کے پکے مخالف کے طور پر ہے اور یہ اسرائیل کا بہت بڑا سپورٹر ہے۔ ان کے کچھ ارشادات ملاحظہ ہوں، جس سے پتہ چلے گا کہ اس کے رجحانات کیا ہیں؟ رواں برس جولائی میں سینیٹر مارکو روبیو اس وقت بھی خبروں میں آیا، جب اس نے امریکی سینیٹ میں انڈیا کی حمایت اور پاکستان کی مخالفت میں ایک بِل متعارف کروایا۔ اس بِل کا نام امریکہ، انڈیا دفاعی تعاون ایکٹ تھا، جس کا مقصد دونوں ممالک میں دفاعی شراکت داری کو بڑھانا تھا۔ مارکو روبیو کے بِل میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ "ٹیکنالوجی کی منتقلی" کے حوالے سے انڈیا کے ساتھ وہی رویہ اختیار کیا جائے، جو کہ امریکہ جاپان، اسرائیلم، کوریا اور نیٹو اتحادیوں کے ساتھ روا رکھتا ہے۔ اس بِل میں پاکستان کا ذکر بھی تھا اور کہا گیا تھا کہ کانگریس کو پاکستان کے دہشتگردی اور پروکسی گروپس کے ذریعے انڈیا کے خلاف طاقت کے استعمال پر کانگریس میں رپورٹ جمع کروائی جائے۔

سینیٹ کی ویب سائٹ پر موجود بِل میں کہا گیا ہے کہ اگر پاکستان انڈیا کے خلاف دہشتگردی سپانسر کرنے میں ملوث پایا جاتا ہے تو اسے سکیورٹی کے اعتبار سے مدد فراہم نہ کی جائے۔ وطن عزیز کے اصحاب حل و عقد کو سوچنا ہوگا کہ اس طرح کا ماضی رکھنے والا شخص پاکستان کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس نے اسرائیل پر ایران کے جوابی حملوں پرسوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ اسرائیل کو ایران کو ویسا ہی ردِعمل دینا چاہیئے، جیسا امریکہ دیتا، اگر کسی ملک نے ہم پر 180 میزائل داغے ہوتے۔ یعنی یہ پوری طرح سے اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ کیپیٹل ہِل پر سیاسی و سماجی کارکنان کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے انھوں نے حال ہی میں کہا تھا کہ "میں چاہتا ہوں کہ وہ (اسرائیل) حماس کے عناصر کو تباہ کرے۔ یہ (حماس) جانور ہیں، جنھوں نے خوفناک جرائم کیے ہیں۔" یہ امریکہ کا نیا سیکرٹری خارجہ ہے، جو فلسطین کی مقبول جماعت کے لوگوں کو جانور کہہ رہا ہے۔ اس سے اہل فلسطین کو خیر کی توقع نہیں ہوسکتی۔

ٹرمپ نے پیٹ ہیگستھ کو امریکہ کا نیا سیکرٹری دفاع مقرر کیا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ  پیٹ کی وجہ سے ہماری فوج دوبارہ بہترین بنے گی اور امریکہ کبھی گرے گا نہیں۔اس نے کہا تھا کہ فوجیوں کے لیے کوئی بھی نہیں لڑتا اور پیٹ "طاقت کے ذریعے امن" کی ہماری پالیسی کے دلیر اور محب وطن چیمپیئن ہوں گے۔ سیکرٹری دفاع طاقت کو دنیا میں مسائل کرنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ یہ سوچ دنیا میں نئی جنگیں لے کر آئے گی۔ مائیک والٹز کو قومی سلامتی کا مشیر بنایا گیا۔ انڈین چینل ویون کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اس نے پاکستان کے حوالے سے کہا تھا: دہشتگردی خارجہ پالیسی کا حصہ نہیں ہوسکتی۔ چاہے وہ لشکرِ طیبہ ہو یا دیگر دہشتگرد گروہ، یہ ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستانی حکومت، پاکستانی فوج اور پاکستانی انٹیلیجنس کو اس سے آگے بڑھنا ہوگا اور ہم ان پر صحیح سمت اختیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے رہیں گے۔ قومی سلامتی کا ایک اہم عہدیدار پاکستان پر دباو کو ایک حل کے طور پر پیش کر رہا ہے اور پاکستان کی پالیسی کو ناقابل قبول قرار دے رہا ہے۔

مائیک ہکابی کو اسرائیل میں امریکی سفیر نامزد کیا تھا۔ کافی عرصے بعد ہوا ہے کہ کوئی غیر یہودی اسرائیل میں امریکی سفیر بنا ہے۔ یہ فلسطین کا پکا دشمن ہے، اس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ فلسطین نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ اپنا پہلا دورہ اسرائیل سنہ 1973ء میں کیا اور اس کے بعد سے وہ وہاں جانے والے درجنوں عیسائی مشنوں کی قیادت کرتے رہے۔ تُلسی گبارڈ کو ڈائریکٹر نیشنل انٹیلیجنس لگایا گیا ہے۔ اس کا ماضی گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ پاکستان پر تنقید کی ہے۔ سنہ 2017ء میں اس نے پاکستان پر اُسامہ بن لادن کو پناہ دینے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔ مارچ 2019ء میں اس نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا تھا کہ جب تک پاکستان دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا رہے گا، دونوں ممالک کے درمیان تناؤ رہے گا۔

جون ریٹکلف کو ڈائریکٹر سی آئی اے سنہ 2020ء کے صدارتی انتخاب سے قبل بطور نیشنل انٹیلیجنس کے سربراہ ریٹکلف نے ایران پر ڈیموکریٹک ووٹرز کو دھمکی آمیز ای میلز بھیجنے کا الزام لگایا تھا، تاکہ ملک میں "بد امنی" پھیلائی جا سکے۔ کل ملا کر یہی امریکی انتظامیہ ہے، لگ یہ رہا ہے کہ اس کے انتخاب مین خصوصی طور پر اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ہر اہم پوسٹ پر اسرائیل کے سپورٹر لوگ ہی سامنے آئیں۔دوسرا ان میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ وہ لوگ فلسطین، چین، ایران اور پاکستان کے لیے بھی دشمنی کا اعلانیہ اظہار کرتے رہے ہوں۔ یہ جنگ مخالف انتظامیہ ہرگز نہیں لگ رہی۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ یہ جنگوں کی کتنی مخالفت کرتے ہیں۔ اس انتظامیہ کے انتخاب سے پتہ چل رہا ہے کہ اسرائیل کو ظلم و جبر کی مزید کھلی چھوٹ ملنے والی ہے اور اس کے لیے بلینک چیک اور گولہ بارود سے بھرے جہاز پہنچتے رہیں گے۔ امریکی اسرائیل کے لیے ہر طرح سے دستیاب رہیں گے۔ مسلم اور عرب ووٹ جس امید سے دیا گیا تھا، اس کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ طاقت کا اظہار جنگوں کی بنیاد بنتا ہے اور امریکہ کو دوبارہ طاقتور بنانے کے لیے جتنے انسانوں کی بلی دینے پڑی، وہ دے دی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 1172746
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش