تحریر: سید رضا عمادی
امریکہ کی طرف سے حشد الشعبی کو تحلیل کرنے کے حوالے سے عراقی حکومت پر دباؤ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ محمد شیاع سودانی کی حکومت سخت ترین مشکل سے دوچار نظر آرہی ہے۔ حشد الشعبی ان اہم گروہوں میں سے ایک ہے، جو نہ صرف مزاحمتی بلاک کا اہم رکن ہے بلکہ اس نے داعش کی دہشت گردی کے خلاف عراق میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ حشد الشعبی نے گذشتہ 15 مہینوں میں صیہونیت کے خلاف غزہ کے عوام کی حمایت میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ شام میں "بشار الاسد" کی حکومت کے خاتمے کے بعد امریکہ کی طرف سے حشد الشعبی کی تحلیل کی بات اٹھائی گئی، جو رفتہ رفتہ اب بغداد کی حکومت کے خلاف سیاسی دباؤ میں بدل گئی ہے۔
درحقیقت بشار الاسد کی حکومت کی آسان، کم لاگت اور فوری معزولی نے اس درخواست اور دباؤ کی بنیاد فراہم کی ہے، کیونکہ امریکہ اور صیہونی حکومت اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مزاحمتی حلقے کمزور ہوچکے ہیں اور اب حشد الشعبی کو ہٹانے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ حشد الشعبی عراق میں موجود سب سے اہم مزاحمتی حلقوں میں سے ایک ہے۔ یہ دباؤ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب حشد الشعبی نے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے دوران بغداد حکومت کے ساتھ اتحاد کی پالیسی اپنائی ہے اور صیہونی حکومت کے خلاف حملے روکتے ہوئے شام کے بحران میں مداخلت سے گریز ہے۔
حشد الشعبی کو ختم کرنے کا دباؤ ایسے عالم میں سانے آیا ہے کہ حشد الشعبی کو 2016ء میں سرکاری طور پر عراقی مسلح افواج میں ضم کر دیا گیا تھا اور انہیں عراقی فوج کا سرکاری حصہ سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت حشد الشعبی کو تحلیل کرنے کے لیے عراقی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا بنیادی مقصد عراقی فوج کی صلاحیت کو کم کرنا ہے۔ عوامی قوتوں کی کمی کی وجہ سے فوج کو کارروائی میں کمزوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسی غلطی تھی، جس کا ارتکاب بشار الاسد کی حکومت نے شام میں کیا اور عوامی طاقتوں کو منتشر کرکے ریاست کی دفاعی اور فوجی طاقت کے ایک اہم حصے کو عملی طور پر تباہ کر دیا اور یہ کارروائی بشارالاسد کے اقتدارکے خاتمے کا باعث بنی۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ حشد الشعبی عراق کی باضابطہ فوجی قوت ہے، اس کی تحلیل پارلیمنٹ کی منظوری کے ساتھ ہونی چاہیئے اور حکومت تنہاء اس معاملے پر فیصلہ نہیں کرسکتی۔ عراق کے سیاسی اور سکیورٹی امور کے ماہر غنی الغدبان نے اس تناظر میں کہا ہے کہ عراقی حکومت حشد الشعبی کو مکمل طور پر تحلیل نہیں کرسکتی، کیونکہ اس کی تشکیل کو پارلیمانی اکثریت سے منظور کیا گیا تھا اور اسے تحلیل کرنے کا کوئی بھی فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ حشد الشعبی کی تشکیل 2014ء میں ہوئی تھی اور عراق میں داعش کے حملے کے بعد عراق کے مرجع آیت اللہ سیستانی کے فتوے سے یہ ادارہ تشکیل پایا تھا۔
بعض طاقتوں نے اس تنظیم کو تحلیل کرنے کے لیے آیت اللہ سیستانی کی رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کی، جو عملی طور پر حاصل نہیں ہوسکی۔ اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے عراقی امور نے حشد الشعبی تنظیم کی تحلیل کے حوالے سے آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کی کوشش کی، لیکن یہ مسئلہ عراق کی مرجعیت کی مخالفت کا سبب بنا۔ عراق میں حشد الشعبی اور شام میں عوامی فورس کے درمیان اہم فرق یہ ہے کہ حشد الشعبی کو عراق کی دینی مرجعیت کی حمایت حاصل ہے، جبکہ شام میں صورت حال اس سے قطعی مختلف تھی۔