اسلام ٹائمز۔ صیہونی عزائم کی تکمیل کے لئے شام میں لائے گئے عبری و غربی مہرے محمد الجولانی سے جرمنی اور فرانس کے وزرائے خارجہ کی ملاقاتوں پر تبصروں کے دوران بین الاقوامی امور کے ماہرین نے کہا ہے کہ ان وزرا کے دوروں کا مقصد شام میں سیاسی پیش رفت کے حوالے سے تذبذب کی کیفیت سے نکلنے کی ایک کوشش ہے، جبکہ شام کے بارے میں یورپ کا رویہ اس بات پر منحصر ہے کہ امریکہ اس ملک کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ جین نوئل باروٹ اور جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے گزشتہ جمعے کو دمشق میں القاعدہ کے سابق سرغنہ اور ھییات تحریر الشام کے موجودہ کمانڈر احمد الشرع (محمد الجولانی) سے ملاقات کی۔ اس بارے میں فرانسیسی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ہماری توجہ دمشق میں اقتدار کی پرامن منتقلی پر ہے، ایک ایسا عمل جو تمام شامیوں کے حقوق کی ضمانت دے۔ شام میں فرانس اور جرمنی کے اعلیٰ حکام کے درمیان ہونے والی بات چیت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ملک کے شمال مشرق میں استحکام بھی شامل تھا۔
جرمن اور فرانسیسی سفارتی اداروں کے اعلیٰ حکام کی جولانی کے ساتھ ملاقات کے بعد جرمن وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ شام کی تعمیر نو کے عمل میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔ جرمن اور فرانسیسی وزرائے خارجہ نے شام میں کچھ مذہبی اقلیتی گروہوں سے بھی ملاقات کی اور صیدنایا جیل کا بھی دورہ کیا۔ العربی الجدید کے مطابق شامی حکومت کے خاتمے کے بعد الجولانی کی مغربی حکام کے ساتھ اس سطح کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ واضح رہے کہ تجزیہ کاروں کا ذرائع کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ شام میں ہونے والی پیش رفت ترکی، موساد اور سی آئی اے کے سکیورٹی اداروں کی مشترکہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ یورپی ممالک کے عہدیداروں کے یہ دورے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شام میں سیاسی تبدیلی میں علاقائی اور مغربی ممالک ملوث ہیں۔
تجزیہ کاروں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس وقت ہم شام میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ یہ دور نزدیک کے ممالک کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں ترتیب دیا جانیوالا ایک دھندلا اور غیر واضح منصوبہ ہے، جس کی تیاری 2016 سے ہی جاری تھی، جس پر ترک انٹیلیجنس سروسز، موساد اور سی آئی اے نے مل کر عمل درآمد کیا ہے، یورپی، عرب ممالک اور اقوام متحدہ کے نمائندوں اور عہدیداروں کے سفارتی دوروں کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کس طرح دنیا خطے اور شام کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کو تبدیل کر رہی ہے، ان ممالک کے شام کی نئے عہدیداروں کے ساتھ بات چیت کا بنیادی مقصد شام میں ایران کے اثر و رسوخ کے راستوں کو محدود و مسدود کرنا ہے، اسی طرح وہ شام میں بیٹھ کر حزب اللہ پر ضرب لگانا چاہتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی شام سے متعلق مستقبل کی پالیسی سے متعلق مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران اچھی طرح جانتا ہے کہ شام میں تبدیلی کا مقصد کیا ہے اور شام میں سیاسی تبدیلیاں ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت لائی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لئے ضروری اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔ دوسری طرف شام میں مغربی ممالک، اقوام متحدہ اور ترک و عرب ممالک کے عہدیداروں کے مسلسل دوروں سے یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تحریر الشام نے ملک میں امن امان کی صورتحال پر قابو پا لیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ شام کا مستقبل لیبیا اور عراق سے مختلف طے کیا گیا ہے، یہاں لیبیا جیسی صورتحال شاید پیدا نہ ہو اور داخلی عدم استحکام پر قابو پا لیا جائے۔ جیسا کہ جرمن وزیر خارجہ نے یہ بیان دیا ہے کہ جلد ان ممالک کے سفارتخانے شام میں کام شروع کر دینگے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اصل میں علاقائی ممالک اور یورپ کے لئے شام کی پالیسی امریکی اقدامات کی روشنی میں مرتب ہوگی، امید کی جا سکتی ہے کہ شام سے پابندیاں ہٹیں اور وہاں پر سیاسی اور معاشی عمل بحال ہو جائے۔