تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
3 جنوری 2025ء کی شام اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں ایک عظیم الشان کانفرنس، اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانہ میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں مسئلہ فلسطین کے ان عظیم رہنماؤں کو خراج تحسین پیش کیا گیا، جنہوں نے فلسطین کی آزادی کے لیے جام شہادت نوش کیا۔ اس کانفرنس کے میزبان ایرانی سفیر عزت مآب جناب رضا امیری مقدم نے آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ زضا امیری مقدم ایک نہایت متحرک شخصیت کے مالک ہیں اور بہت ہی ملنسار ہیں۔ انہوں نے اپنے استقبالیہ خطبہ میں آنے والے معزز مہمانوں کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور اس کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے اس کے اغراض و مقاصد بیان کئے۔ کانفرنس میں مختلف شعبھائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احباب نے شرکت کی۔ کانفرنس سے مختلف مسالک کے علماء و مشائخ کے علاوہ سیاسی قائدین نے بھی خطاب کیا۔
راقم کو بھی کانفرنس میں اظہار خیال کی دعوت دی گئی، بلکہ سب سے پہلے مجھے ہی اظہار خیال کے لیے بلایا گیا۔ میں نے چند منٹ کی گفتگو میں جن خیالات کا اظہار کیا، وہ قارئیں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔ میں نے آغاز گفتگو میں سورئہ الفتح کی آخری آیت نمبر 29 کا حوالہ دیا کہ جس کے بالکل ابتدائی حصہ میں اللہ تعالی نے فرمایا: محمدﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں، وہ کفار پر سخت اور آپس میں مہربان ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جو جناب رسالت مآبﷺ کے ساتھ ہیں، ان کا طرز عمل قرآن مجید نے بیان کیا کہ وہ کفار کے لیے نہایت سخت اور متشدد ہیں، جبکہ وہ آپس میں رحیم و کریم ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آج امت مسلمہ اس ایمانی و قرآنی طرزعمل سے بالکل الٹ تصویر پیش کر رہی ہے۔ وہ کفار کے لیے تو بہت مہربان اور نرم ہے، لیکن آپس میں ان کے رویئے بہت سخت ہیں۔ اس غیر قرآنی و غیر اسلامی طرز عمل کی وجہ سے آج پورا عالم اسلام مغربی استعمار کے مکمل شکنجے میں ہے اور وہ اس پر ظلم و بربریت کر رہا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ غزہ کی تباہی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہمارے حکمران ظالم کے ساتھ کھڑے ہوگئے جبکہ مظلوم ان کا اپنا مسلمان بھائی ہے۔ پورا عالم اسلام غزہ پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر خاموش ہے۔ یہ حکمران اپنے عوام کے جذبات کے ساتھ بھی کھیل رہے ہیں۔ پوری امت کے عوام اپنے مظلوم بھائیوں پر ڈھائے جانے والے دردناک مظالم پر خون کے آنسو بہا رہے ہیں جبکہ حکمران عوامی خواہشات کے برعکس امریکی استعمار کے سامنے سر جھکاے کھڑے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے، زمین پہاڑوں پر انحصار کرتی ہے جبکہ قومیں اپنے حکمرانوں اور رہنماؤں پرـــ۔۔۔ مسلم دنیا کے بڑے المیہ جات میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کے اکثر حکمران امریکہ اور مغرب کی کٹھ پتلی ہیں۔ یہ بھی ایک سامنے کی حقیقت ہے کہ جس لشکر میں غدار موجود ہوں، اسے مہیب نقصان سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ آج اگر امت میں چھپے غدار اپنی ملت کے ساتھ غداری نہ کرتے تو ہمیں عظیم سید حسین نصرالله، اسماعیل ھانیہ، یحییٰ سنوار اور اس سے قبل حاج قاسم سلیمانی جیسے امت کے ہیروز کی شہادتوں کا دکھ نہ سہنا پڑتا۔
اس کانفرنس میں ایک سیاسی جماعت کے رہنماء نے اپنی گفتگو میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم صیہونیوں کے خلاف ہیں، یہودیوں کے خلاف نہیں ہیں۔ یہ بات ہمیں متعدد دفعہ اپنے رہنماؤں سے سننے کو ملتی ہے، لیکن میرے خیال میں یہ نظریہ درست نہیں ہے۔ میں یوں کہوں کہ یہ نظریہ قرآنی نقطۂ نظر کے بالکل خلاف ہے تو غلط نہ ہوگا۔ قرآن حکیم نے ہمیں یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستانہ مراسم بڑھانے سے اس لیے منع کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے کبھی خیرخواہ نہیں ہوسکتے۔ قرآن حکیم نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ یہود تمہارے ساتھ اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے، جب تک آپ ملت یہود کی کامل پیروی نہ کریں۔ صیہونیت تو یہودیت کا مقدمہ الجیش ہے۔ پوری دنیائے یہود اسرائیلی درندوں کو فنڈنگ کر رہی ہے۔ بائیڈن حکومت کا وزیر خارجہ اسرائیل آکر کہہ چکا ہے کہ میں آپ کے پاس امریکی وزیر خارجہ کی حیثیت سے نہیں آیا بلکہ ایک یہودی کی حیثیت سے آیا ہوں۔
اس سے ہمیں سمجھ لینا چاہیئے تھا کہ صیہونیت اور یہودیت ملت واحدہ ہیں۔ خدا جانے ہم کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ یہودی اچھے اور صیہونی یہودی برے ہیں۔ میری دانست میں اسرائیل کو یہودیوں اور عیسائیوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اگر دنیا کے یہودی اسرائیل کے پشت پناہ نہ ہوتے تو اسرائیل مقاومت کی ایمانی طاقت کے مقابلہ میں ایک ہفتہ بھی نہ نکال سکتا۔ آزادی فلسطین کے لیے جس طرح ہمارے مجاہدین بے سر و سامانی کے عالم میں اسرائیل کا مقابلہ کر رہے ہیں، وہ عصر حاضر میں بے مثال ہے۔ اس کانفرنس کے ایک مقرر نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ایک وقت تھا کہ جب چھ (6) عرب ممالک اسرائیل کے مقابلہ میں چھ دن بھی نہ ٹھر سکے تھے، لیکن آج مقاومت اسلامی کے عظیم مجاہدین پندرہ ماہ (15)سے اسرائیل کا اپنی ایمانی قوت کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں۔ آج مقاومت کے عظیم ہیروز جام شھادت نوش کرچکے ہیں، مگر ان کی جگہ لینے والے قائدین اسی جذبہ ایمانی کے ساتھ میدان کارزار میں ڈٹے ہوئے ہیں۔
ان پندرہ ماہ میں پچاس ہزار کے قریب مرد، عورتیں، جوان، بوڑھے اسرائیل کے بموں اور میزائیلوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ یہ صیہونی درندہ ہمارے دس ہزار معصوم بچوں کی جانیں لے چکا ہے۔ فلسطین کی نسل کشی میں اسرائیل کا سب سے بڑا معاون امریکی استعمار ہے۔ اس نے اپنی ٹیکنالوجی کو دنیا کی تباہی کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس نے اسلحہ کے ذریعے دنیا کے ہر حصے کو خون آلودہ کیا ہے۔ ڈالرز کے ذریعے بے حیائی، فحاشی اور منشیات کو پوری دنیا میں فروغ دیا ہے۔ اس نے پوری دنیا کی اخلاقیات کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ انسانوں نے اس زمین پر پرامن رہنے کے لیے جو قوانین بنائے تھے، اس نے ان کی توہین کی اور انہیں بے توقیر کر دیا۔ اگر امریکی قوم میں ذرا بھی اخلاقی قوت موجود ہوتی تو آج غزہ اس طرح لہولہان نہ ہوتا۔ اس تمام قابل افسوس صورت حال کے باوجود مجھے یقین ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں کو فتح سے ضرور نوازے گا، ان شاء اللہ۔