انٹرویو: معصومہ فروزان
عراقی امور کے ماہر اور تجزیہ کار "ہیثم الخز علی" نے شام کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے "
اسلام ٹائمز" کے رپورٹر کو بتایا ہے کہ اگر صحیح تشخیص دیتے ہوئے صحیح اقدامات انجام دیئے جائیں تو شام کی صورتحال ہمارے لیے زیادہ مفید ثابت ہوگی۔ شام میں اس وقت کئی جماعتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ یہ سب شیعہ دشمن ہیں لیکن عراق کو شاید ترکیہ، امریکہ، صیہونی حکومت، سعودی عرب، اردن، مصر وغیرہ کی فکر کم ہے بلکہ اصل مسئلہ اور ہے جو اس ملک کو خطرات سے دوچار کرسکتا ہے اور وہ یہ کہ اگر اہل عراق نے نفسیاتی جنگ اور دھمکی پر قابو پالیا تو وہ سب کو پیچھے چھوڑ دے گا اور وہ دو اہم چیزیں درج ذیل ہیں۔
1۔ داعش کے گروہوں یا عراق میں موجود خاموش گروہوں کو اکسانا عراق میں غیر ملکی فوجیوں کے قیام کو طول دینے کے لیے ہے۔ ہمیں اس نفسیاتی جنگ پر قابو پانا ہوگا، کیونکہ ہم مضبوط ہیں، کیونکہ الشعبی کے ساتھ مرجعیت بھی ہے اور عوام بھی اس کے اہم ضامن ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ عراق میں ہمیں شام کے برعکس کرنا چاہیئے اور حشد الشعبی فورسز کے لیے سروس اور ریٹائرمنٹ کے قانون کو باضابطہ طور پر منظور اور نافذ کرنا چاہیئے اور اس طرح کی فورسز کی تعداد بڑھانے اور فوجی انفراسٹرکچر بنانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
ہیثم الخز علی نے مزید کہا ہے کہ ہمیں بغداد کے ارد گرد کی علاقوں کو حشد الشعبی کی افواج کے درمیان تقسیم کرنا چاہیئے اور ان قوتوں کی حتی الامکان حمایت کرنی چاہیئے، تاکہ یہ نفسیاتی جنگ حقیقی اعداد و شمار سے باہر آسکے۔ انہوں نے مزید کہا شام میں دہشت گرد گروہوں نے صفر کی معیشت والے ملک پر قبضہ کر لیا ہے، اس کی فوج کو صیہونیوں نے مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے اور اسے اب SDF فورسز اور آزاد شامی فوج کے ساتھ جنگوں کا سامنا ہے۔ اردن، مصر اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ گروہ اپنے اندر اخوان اور سلفیت کی موجودگی سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔
2۔ عراقی ماہر نے کہا ہے کہ دوسری صورت جس سے عراق کو خطرہ ہے وہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا وہم یہ ہے کہ الجولانی کے اقتدار میں آنے کے بعد عراق مضبوط ہو جائے گا اور اس کے سنی خطے کے مطالبے کو ارد گرد کے کسی بھی ملک کی حمایت نہیں ہوگی، سوائے قطر کے، جو اسے آسانی سے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس طرح ہمیں سنی شخصیات کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہیئے، جو اپنے موقف اور حمایت سے عراق کے اتحاد میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ "الخز علی" نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ابھی شام کے خلاف طویل المدتی جنگیں ہیں، اس سے پہلے کہ یہ عراق کے لیے خطرہ بن جائے، ہمیں اس فرصت سے فائدہ اٹھانا چاہیئے۔
دوسری طرف مغرب ایک ایسی جنگ میں ملوث ہے، جو جلد ختم نہیں ہوگی۔ طاقت کے ذرائع اور پاور کوریڈور حتیٰ کہ قطر کی گیس اور خلیج فارس کے ممالک کا تیل بھی ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہمارے ہاتھ میں دباؤ کے ہتھیار بدستور موجود ہیں۔ آخر میں اس عراقی ماہر نے اس اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا اور کہا ہے کہ آخر میں میں یہ کہوں گا کہ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہمیں دشمنوں کے درمیان جنگوں کے خاتمے تک اپنی صفوں کو منظم اور مضبوط کرنا چاہیئے اور اس طرح ممکن ہے کہ کچھ فریقین مستقبل میں مزاحمت کی بنیاد مضبوط کرنے کے عمل میں شریک ہو جائیں۔