0
Wednesday 25 Dec 2024 09:42

قائد اعظمؒ اور ایران کے تعلقات

قائد اعظمؒ اور ایران کے تعلقات
تحقیق و تحریر: حاجی شبیر احمد شگری

قائداعظم مسلمانوں کیلئے ایک عظیم قائد تھے، انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو ایک آزاد ملک دیا بلکہ وہ دیگر اسلامی ملکوں کے بارے میں بھی گہری نظر اور نظریہ رکھتے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے فلسطین کے حق میں اور اسرائیل کیخلاف دوٹوک بیانات دیئے، اسی طرح ہمسایہ برادر ملک ایران کے بارے میں بھی گہرے دلی جذبے اور دوستی کا اظہار کیا۔ جس کی کئی وجوہات تھیں۔ قیام پاکستان کے بعد ایران نے پاکستان کو دنیا کے نقشے پر سب سے پہلے تسلیم کیا، اس کے علاوہ قائداعظم ریلیف فنڈ میں ایرانی عوام نے بھی فراخدلانہ شرکت کی اور پاکستان کے قیام کے بعد فوری طور پر سفارتی نمائندوں کا تبادلہ ہوا۔ ایرانی عوام کی نئے اسلامی ملک کے بارے میں دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئےخیرسگالی اور حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایرانی میڈیا کے وفد نے بھی پاکستان کا دورہ کیا۔ ایران کی جانب سے جذبہ دوستی و خیر سگالی کیلئے کئے گئے اقدامات کی وجہ سے قائداعظم ایران سے دلی لگاو اور قربت رکھتے تھے اور ایران و ایرانی عوام کے جذبے کو یقیناً قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

قائداعظمؒ نے پاکستان بننے کے بعد ایرانی میڈیا کے وفد کی آمد کا خیر مقدم کیا اور اسے ایران کی جانب سے خیرسگالی کا تیسرا بڑا مظہر قرار دیا تھا۔ ایرانی وفد کے ارکان سے ملاقات میں ۱۹مئی ۱۹۴۸ء کو بات چیت کرتے ہوئے قائداعظم نے دونوں برادر ہمسایہ ممالک کے درمیان ہم آہنگی، وحدت اور پورے ایشیا کے عوام کے مسائل خاص طور پر مسلم عوام کے تعلقات پر زور دیا۔ قائداعظم کی نظر میں یہ اقدامات عالمی امن اور خوشحالی کے حصول میں اہم کردار ادا کرنے والے تھے۔ اس موقع پر قائد اعظمؒ کا فرمانا تھا کہ اغیار نے ہم سے مادر وطن اور آزادی چھین لی تھی، لیکن اب ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے پاکستان قائم ہوچکا ہے۔ ہماری آزادی آپ ہی کی آزادی کا ایک حصہ ہے۔ ان دو آزاد مملکتوں کو، جو مشترک ورثے کی امین ہیں، مل کر مسلم دنیا میں ایک غالب اکائی کی تشکیل کرنی چاہیئے۔ ان قابل قدر جذبات کے اظہار نے دونوں برادر ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران کے تعلقات میں مضبوط استحکام پیدا کیا۔

یہ وفد جب واپس ایران گیا تو اس نے ایران کے سربراہ مملکت سے ملاقات کرکے اپنے دورے کے بارے میں آگاہ کیا۔ ایرانی سربراہ مملکت نے اس پر مُسرت کا اظہار کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے نمائندے کے ذریعے بھی ایرانی سربراہ کو پیغام بھیجا، جس میں کہا کہ خدا نہ کرے کہ کبھی ایران پر ضرورت کا کوئی وقت آئے، اگر ایسا ہوا تو پاکستان ایک جسد واحد کی طرح ایران کی مدد کے لیے حاضر ہوگا۔ یہ بات کوئی صرف جذباتیت نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قائد محترم کے ان فرمودات اور خواہش کا احترام کرتے ہوئے ہمیں ان دونوں برادر ممالک کے تعلقات اور دوستی میں اضافے کیلئے بھرپور اور ہر ممکن عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ قائد اعظمؒ مستقبل پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ پاکستان اور ایران آج اہم تاریخی موڑ پر ہیں، ایسے میں بانی پاکستان کی خواہش دونوں ممالک کی نزدیکیوں میں اضافے اور عالمی مسائل پر یکساں موقف کی راہ ہموار کرنے کیلئے رہنمائی کر رہی ہے۔

قائد اعظمؒ دونوں ممالک کی آزادی کو ایک دوسرے سے منسلک قرار دے چکے تھے۔ قائد اعظم کی سوچ میں دونوں مماک کے باہمی تعلقات سے عالمی امن اور خوشحالی بھی وابستہ ہے۔ موجودہ عالمی منظرنامے میں قائد کی اس بات کا مطلب واضح ہوچکا ہے۔ ایران اور پاکستان کے دوطرفہ روابط کے حوالے سے قائد اعظم کی خواہش پر عمل کرکے ہم انھیں بہترین خراج تحسین پیش کرسکتے ہیں۔ اسے ہم پچیس دسمبر کو منائے جانیوالے یوم قائداعظم کے ایک اہم پیغام کے طور پر لے سکتے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے حالات کسی بھی دوسرے ممالک کی طرح نہیں ہیں بلکہ ان دونوں برادر اور اسلامی ممالک کے درمیان گہرے تاریخی، تہذیبی اور ثقافتی روابط اس ملک کے وجود میں آنے سے پہلے بھی تھے اور قیام پاکستان کے بعد ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلق کا اغاز خاص گرمجوشی سے ہوا تھا۔ پاکستان کے قیام پر ایران دنیا کا پہلا ملک تھا، جس نے پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد و خود مختار اسلامی ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ اس کے بعد بہت جلد ہی دونوں ممالک سفارتی تعلقات میں بندھ گئے۔

ایران کی جانب سے سب سے پہلے پاکستان میں آقای خرد بار کو پہلا قائم مقام سفیر نامزد کیا گیا اور ایران میں میجر محمد حسن کو پاکستان کی جانب سے سفیر بنایا گیا۔ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان بھی ایک دوسرے کی قربت کا جذبہ امڈ آیا تھا اور ایران کے مختلف طبقہ ھای فکر نے اس نئی اسلامی مملکت سے تعلقات کی ضرورت اور خواہش کا اظہار کیا۔ ابتدائی اور مشکل گھڑی میں ایران نے پاکستان کو مہاجرین کی آبادکاری کے اقدامات کیلئے فراخدلانہ مدد کی پیشکش بھی کی۔ اس موقع پر دونوں ممالک کے میڈیا نے بھی باہمی احوال پر اہم کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کی خبروں کو ایران نے نمایاں اہمیت دی، جس سے نہ صرف دنیا کو یہ آگاہی ملی کہ ایران پاکستان کیساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا ہے، بلکہ خود ایران کی عوام کے دلوں میں بھی اپنے نئے برادر ہمسایہ ملک اور یہاں کے عوام کیلئے محبت اور مزید قریب ہونے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس سلسلے میں ایرانی میڈیا کے نمائندے خود پاکستان آئے اور یہاں آکر قریب سے ملک کے حالات دیکھے۔ اس بارے میں 9 اپریل 1948ء کے پاکستان ٹائمز کے مطابق ایرانی صحافتی وفد نے پاکستان میں کراچی، لاہور، پشاور اور دوسرے اہم شہروں کا دورہ کیا۔ کراچی ان دنوں پاکستان کا دارالحکومت تھا۔ اس وفد نے نہ صرف مختلف مقامات پر جا کر نئے ملک پاکستان کے احوال و مسائل سے آگاہی حاصل کی، بلکہ اس وفد کے ارکان کی اہم ترین سرگرمی یہ بھی رہی کہ انھوں نے گورنر جنرل پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات بھی کی۔

پاکستان کی پہلی عید کے موقع پر جب ایرانی حکمران کی جانب سے قائداعظم کو تہنیت کا پیغام بھیجا گیا تو اس کے جواب میں قائداعظم نے فرمایا، امید ہے کہ ان دونوں ملکوں کے تاریخی اور ثقافتی روابط اور سیاسی دوستی نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ پروان چڑھے گی۔ ایران میں موجود پاکستان کے پہلے سفیر میجر محمد حسن نے پیغام براہ راست پیش کرتے ہوئے ایرانی حکمران سے یہ بھی کہا کہ قائداعظم کبھی ایسی بات نہیں کرتے، وہ جس کے معانی کا ادراک نہ رکھتے ہوں، قائداعظم کے نمائندے نے اس ملاقات میں یہ بھی کہا کہ ایران نے پاکستان کی اخلاقی اور مادی مدد کرکے پاکستانی عوام کے دل جیت لیے ہیں۔ ایران نے اس وقت پاکستان کی مدد کی ہے، جب اس کی بقاء خطرے میں پڑی ہوئی تھی۔ پاکستانی عوام ایران کی حقیقی عزت کرتے ہیں۔ اس ملاقات میں ایرانی سربراہ مملکت نے ان جذبات کے اظہار پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور قائداعظم کے نام اپنے پیغام میں ان کے دوستانہ جذبات کا احترام کرتے ہوئے اپنی جانب سے بھی ویسے ہی جذبات کا اظہار کیا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان جلد ہی اپنی مشکلات پر قابو پا لے گا۔
خبر کا کوڈ : 1180215
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش