تحریر: جعفر قنادباشی
شام میں صدر بشار اسد حکومت کی سرنگونی اور سابق النصرہ فرنٹ اور داعش اور موجودہ ھیئت تحریر الشام کا برسراقتدار ہو جانا دراصل ایک امریکی اور اسرائیلی ایجنڈا ہے جس کا مقصد نیو مڈل ایسٹ منصوبے کی تکمیل ہے۔ یہ ایسا منصوبہ ہے جس پر گذشتہ کئی سالوں سے کام ہو رہا ہے اور پہلی بار اس وقت منظرعام پر آیا تھا جب 2006ء میں امریکی وزیر خارجہ کینڈولیزا رائس نے لبنان پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی کو ایسے درد زہ سے تعبیر کیا تھا جس کا نتیجہ نئے مشرق وسطی کی پیدائش تھی۔ اگرچہ صدر بشار اسد حکومت کی سرنگونی اور دمشق پر تکفیری دہشت گرد عناصر کے قبضے سے بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ شام میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دمشق پر مسلح گروہوں کا قبضہ اور اس حصے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں مشرق وسطی کی مجموعی صورتحال پر اثرانداز نہیں ہو سکتیں۔ اس وقت مشرق وسطی کی مجموعی صورتحال یہ ہے کہ مغربی ممالک اور ان کے اتحادیوں کی حمایت کم ہوتی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف اسلامی مزاحمتی بلاک روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔ یوں شام میں رونما ہونے والے موجودہ سیاسی حالات کا انحصار امریکہ اور اسرائیل کی آئندہ پالیسی پر ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ عبری عربی مغربی مثلث، شام میں جس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے اس کے تحت وہ وہاں ایک مضبوط اور مستحکم مرکزی حکومت نہیں چاہتی بلکہ ان کا بنیادی ترین مقصد شام کو اسلامی مزاحمتی بلاک سے نکال باہر کرنا ہے اور اسلامی مزاحمتی بلاک میں شام کے کردار کا خاتمہ ہے۔
لہذا اس پس منظر میں یہ تصور بالکل غلط اور غیر منطقی ہے کہ شام کے حالات پرامن اور سیاسی استحکام پر مبنی ہو جائیں گے۔ ایسے تصور کا خطے کے جغرافیہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا سرچشمہ وہ اوہام ہیں جو مختصر مدت کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ ممالک جو شام میں سرگرم پراکسی گروہوں کی حمایت میں مصروف ہیں، اس حقیقت سے غافل ہیں کہ یہ فورسز دہشت گرد گروہوں کی صورت میں شام میں داخل ہوئی ہیں، وہ بھی ایسے دہشت گرد گروہ جن میں ملٹی نیشنل عناصر شامل ہیں۔ لہذا کچھ ہی عرصے میں ان مختلف قومیتوں کے حامل جتھوں کے درمیان ٹکراو پیدا ہو جائے گا اور اس کی شدت بڑھتی جائے گی اور وہ ایکدوسرے کو قبول نہیں کریں گے۔ عرب سنی ممالک ترکی کی جانب سے پھیلائے جانے والے پین ترکزم کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
دوسری طرف ترکی اور شام کے درمیان اختلافات کی اصل اور بنیادی وجہ شام کے شمالی حصے میں مقیم کرد باشندے ہیں۔ لہذا کرد باشندے بھی ترکی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ مزید برآں، کرد ماضی میں داعش سے پہلے ہی زخم کھا چکے ہیں اور یہ پرانا زخم کبھی بھی دوبارہ تازہ ہو سکتا ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ترکی اس وقت تین مختلف انداز میں کردار ادا کر رہا ہے۔ رجب طیب اردگان نے کئی سال پہلے عثمانی طرز حکومت اپنایا جو مغربی ایشیا میں ایک تاریخی انداز جانا جاتا ہے اور اس میں قومیت پسندی کے ساتھ ساتھ اسلامی رنگ بھی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جب یہ حکمت عملی ناکام رہی تو اس نے پین ترکزم کی پالیسی اختیار کی۔ لیکن خطے اور خاص طور پر شام کے موجودہ حالات ایسے ہیں جو رجب طیب اردگان کی پین ترکزم پالیسی سے مکمل تضاد رکھتے ہیں۔
اسی طرح اخوان المسلمین کا طرز فکر بھی پین ترکزم اور عثمانی انداز، دونوں سے تضاد رکھتا ہے، کیونکہ اخوانی سوچ قومیت سے بالاتر ہے اور وہ پین ترکزم یا عثمانی انداز سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتی۔ شام کے حالات عدم استحکام کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اس کی اصل وجہ ایک طرف اندرونی اختلافات اور دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل کی مداخلت ہے۔ کچھ سال گزرنے کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ شام میں اسی کا کردار کامیاب رہے گا جس نے گذشتہ پندرہ برس سے شام کے انتظامی امور کامیابی سے چلائے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی مدت صدارت شروع ہونے کے بعد خطے کے حالات تبدیل ہو جائیں گے۔ ٹرمپ بھی دہشت گردوں کا حامی ہے لیکن اس کے برسراقتدار آنے کے بعد ایک نیا طوفان جنم لے گا۔ یہی چیز ان کی طاقت کم کر دے گی اور دوسری طرف اسلامی مزاحمتی بلاک کی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا۔
مغربی ممالک بھی اقتصادی مشکلات اور روس اور یوکرین میں جنگی حالات کے باعث شام میں پیدا ہونے والی مشکلات حل کرنے سے عاجز ہیں۔ دوسری طرف وہ افراد جو اس وقت شام میں برسراقتدار ہیں نیز اس ملک کے حالات بہتری کی جانب نہیں لے جا سکتے کیونکہ ان میں ایسی توانائیاں نہیں پائی جاتیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ قوتیں جو عارضی طور پر شام پر قابض گروہوں کی جانب جھکاو پیدا کر چکی ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی مزاحمتی بلاک کی جانب واپس آ جائیں گی۔ اسلامی مزاحمتی بلاک کا ایندھن اسرائیل کے خلاف نفرت اور غصہ ہے جس نے عالمی سطح پر بھی ایک محاذ کھڑا کر دیا ہے۔ اگر شام میں موجودہ تضاد پیدا نہ بھی ہوتا تب بھی غاصب صیہونی رژیم کی وحشیانہ بربریت خطے کے ممالک اور شامی عوام کی اسرائیل سے تعلقات کی بحالی میں رکاوٹ بننے کے لیے کافی تھی۔