تحریر: محمد زین عباس
اس کے چلے جانے پر دل بہت رویا ہے۔ وہ ایک استاد تھا، حقیقی استاد، انسان ساز استاد۔ وہ ایک جوہری تھا، گوہر شناس اور گوہر ساز جوہری۔ وہ کیمیا گر تھا۔ اس نے نہ جانے کتنے دل جیت رکھے تھے۔ وہ بے گھر تھا لیکن سارے گھر اس کے اپنے تھے۔ اس نے ایک پناہ گزیں کیمپ میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کا بچپن محرومیوں میں گزرا۔ جب ہوش سنبھالا تو بھوک، پیاس، بے وطنی اور مظلومیت کو اپنے وجود سے لمس کیا۔ بڑا ہوتا گیا تو آزادی کی فکر بھی پختہ سے پختہ تر ہوتی گئی۔ بچپن ہی میں سوچ کو جوان کر لیا، جوان ہوا تو افکار ادھیڑ عمر کو چھونے لگے اور ادھیڑ عمر میں پختگئ پیرانہ کا یہ عالم تھا کہ اس دھوکے اور فریب کی دنیا کی سب سے بڑی شیطانی طاقتیں اس کے زاويۂ نگاہ کو دیکھ دیکھ کر اپنی راہیں طے کرنے کی جستجو میں رہتیں لیکن اس کے سائے تک کو نہ پا سکتیں۔ گویا وہ وقت کی رفتار سے زیادہ رفتار اور اپنی عمر سے زیادہ عمر رکھتا تھا۔
وہ غیرت مند تھا۔ اپنے مقدس وطن سے عشق کرتا تھا۔ اپنے پاک وطن کو غاصبوں کے چلتے پھرتے ناپاک مردہ جسموں سے پاک کرنا چاہتا تھا۔ وطن کو آزاد کروانا چاہتا تھا۔ بے گھروں کو واپس گھروں میں آباد کرنے کی خواہش رکھتا تھا۔ کئی میلوں پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے قید خانے کی دیواریں توڑ کر بے گناہ ہم وطنوں کو آزاد کروانے کی سوچ اسے راتوں کو سونے نہیں دیتی تھی۔ لٹیروں کے ہاتھوں پر عزتوں کے جنازے اس سے دیکھے نہیں جاتے تھے۔ ڈاکوؤں کا راج اسے گوارا نہیں تھا۔ کئی مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل کھلی فضاء والے قید خانے کا باسی پینٹ کوٹ والے درندوں کے بنائے ہوئے چھوٹے قید خانوں میں دو مرتبہ مختصر وقت کے لیے جبکہ تیسری بار 22 سال تک محبوس رہا۔ طولانی قید نے اس کے عزم و ارادے کو مزید پختہ کر دیا تھا۔ آزاد ہوتے ہی اپنے مظلوم ہم وطنوں کی آزادی کے لیے سرگرم ہو گیا۔
اس نے دریا کی برخلاف سمت میں تیرنا شروع کیا تو موجوں کو شرمندہ کر دیا۔ جب ہوا کی مخالف سمت میں پرواز شروع کی تو بلند سے بلند ہوتا چلا گیا۔ وہ استاد تھا۔ اس نے سینکڑوں جوان تیار کیے جو اسی کی طرح پانی اور ہوا کو مات دینے کا ہنر جانتے تھے۔ پھر ان سب نے مل کر زمین کا سینہ چاک کیا تو میلوں تک اندر اتر گئے لیکن خون کے پیاسے بھیڑیوں کو ان کا سراغ نہ مل سکا۔ پھر ایک دن ایسا آیا (7 اکتوبر 2023) جب یہ سب آزاد مرد غیرت اور حریت کے پرچم اٹھائے زمین کے باطن سے ظاہر ہو کر خاکِ وطن کا دفاع کرنے چلے تو گویا طوفان برپا کر دیا۔ ایسا پاکیزہ طوفان جو دنیا میں غرق مردہ ضمیر انسان نما چلتی پھرتی لاشوں کی سوچ سے بہت مختلف اور ان کے نجس ہاتھوں کی پہنچ سے بہت دور تھا۔ ایک سال کے عرصے میں یہ طوفان تینوں جہتوں میں آگے بڑھتا چلا گیا۔ چوڑائی میں لبنان سے یمن تک پھیل گیا، لمبائی میں ایک سال کی حد کو پار کر چکا ہے جبکہ گہرائی ایسی ہے کہ لسان، مذہب یا بر اعظم کی پابندیوں کو توڑ کر ہر با ضمیر انسان کے دل میں گھر کر چکا ہے۔
اس کے اثرات کو دیکھیں تو مادی دنیا کے خداؤں کے سفید محلات کی دیواروں میں اتنی بڑی دراڑیں پڑ چکی ہیں کہ جہاں سے ان کے اندر کی تاریکی نمایاں ہونے لگی ہے۔ طوفان جاری ہے لیکن ابو ابراہیم چلا گیا۔ وہ اپنے پیچھے نہ جانے کتنے ابراہیم چھوڑ کر گیا ہے جو سرزمینِ مقدس پر قابض بت کو پاش پاش کریں گے۔ وہ زندہ تھا تو طوفان تھا، اور اب جبکہ زندہ تو ہو گیا ہے تو قاتل کے لیے خطرناک تر بن چکا ہے۔ اگر ابو ابراہیم زندہ رہتا تو شاید سوئی ہوئی دنیا کو خبر نہ ہوتی کہ وہ ایک ٹوٹے ہوئے اسلحے کو ٹیپ سے جوڑ کر آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا۔ وہ چلا گیا لیکن جاتے جاتے ایک ایسا کام کر گیا جو تاریخ کو بدل ڈالے گا۔ قاتلوں نے بدمستی میں اس کی آخری ویڈیو جاری کر دی۔ وہ اس کو اپنی فتح کی علامت سمجھ رہے تھے۔ جبکہ وہ انہی کے کیمروں اور انہی کے میڈیا کے ذریعے ان پر ایسا طاقتور حملہ کر گیا جس کی تاب لانا دشمن کے بس میں نہیں۔ اس کا داہنا ہاتھ اور بائیں ٹانگ ٹوٹ چکی تھی۔ ایک انگلی کٹ چکی تھی۔
جسم سے اتنا خون بہہ چکا تھا کہ اب رمق باقی نہ تھی لیکن کئی لحظوں تک اپنی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھتا رہا۔ وہ دنیا کو کربلا کا پیغام پہنچا رہا تھا کہ اگر ہم حق پر ہیں تو فرق نہیں پڑتا کہ ہم موت پر جا پڑیں یا موت ہم پر آ پڑے۔ بچپن میں اس نے ہاتھ میں پتھر لے کر آزادی کے سفر کا آغاز کیا تھا اور اب آخری بار اس کے ہاتھ میں فقط ایک چھڑی باقی تھی۔ اس نے کواڈ کاپٹر کی جانب اپنے بائیں ہاتھ سے چھڑی پھینک کر ہر دیکھنے والے باضمیر انسان کو پیغام دے دیا کہ گواہ رہنا، جس نے بچپن میں ہاتھ میں پتھر اٹھا کر آزادی کی جد و جہد کا آغاز کیا تھا، وہ زندگی کے آخری لحظے تک اپنے رستے سے پیچھے نہیں ہٹھا، اس نے اپنی ماؤں اور بہنوں سے کیے وعدے کو کبھی بھلایا نہیں، وہ وطن اور حق کے دفاع میں تھکا نہیں، ہارا نہیں بلکہ طوفان بن کے آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا۔
اس کا دشمن اس کے اس آخری حملے میں شکست کھا گیا۔ اس نے خود ہی یحییٰ کا یہ پیغام عام کر دیا کہ اے دیکھنے والو، اپنا ہاتھ آگے بڑھاؤ، اس چھڑی کو تھام لو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ گویا یہ کرامت کی چھڑی تھی جو اس عظیم شہید نے جاتے جاتے آزادئ وطن کی جانب دوڑ میں شامل غیرت مند ہاتھوں کے سپرد کر دی جو اس کو منزل مقصود تک پہنچا کے دم لیں گے۔ وہ شہرۂ آفاق شہید جاتے جاتے کیمرے کی آنکھ میں دیکھ کر شاید یہ بھی کہہ رہا تھا کہ
قاتل میرا نشان مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
لشکر کریں گے میری دلیری پہ تبصرے
مر کر بھی زندگی کی خبر چھوڑ جاؤں گا
ویران شہر کے اس کھنڈر بنے گھر کی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں سے اب بھی یہ آواز گلی تک سنائی دے رہی ہے کہ
مطمئن ہوں کہ مجھے یاد رکھے گی دنیا
جب بھی اس شہر کی تاریخِ وفا لکھے گی
میرے گھر کے در و دیوار مجھے سوچیں گے
وسعتِ دشت مجھے آبلہ پا لکھے گی
میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہوگا
میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی