تحریر: تصور حسین شہزاد
پاکستان کی سیاست میں اس وقت بھونچال کی کفیت ہے۔ عمران خان کی جانب سے اپنی رہائی کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ عمران خان نے اپنے کارکنوں کو کال دی تھی کہ وہ آخری راونڈ کھیلنے کیلئے 24 نومبر کو باہر نکلیں۔ یوں عمران خان کی اس کال کے بعد حکومت کی نیندیں اُڑ گئیں۔ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا، دفعہ 144 کا نفاذ کر دیا گیا۔ سڑکیں، موٹروے، حتی کہ لاہور کی رنگ روڈ کو بھی بند کر دیا گیا۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ رنگ روڈ کو بھی بند کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، تاکہ لوگ شہر سے نکل کر اسلام آباد احتجاج میں شریک نہ ہوسکیں۔ بشریٰ بی بی کے بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ انہوں نے کارکنوں کے نام اپنے خصوصی پیغام میں سعودی عرب کو لتاڑ دیا۔ پاکستان میں موجود سعودی نواز لابی کو یہ بہت گراں گزرا اور مسلسل بشریٰ بی بی کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔
بشریٰ بی بی نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ عمران خان کیخلاف جو ساری قوتیں کھڑی ہوگئی ہیں، اس کی وجہ کسی نے آپ کو نہیں بتائی ہوگی، ’’عمران خان جب سب سے پہلے ننگ پاوں مدینہ گئے اور واپس آئے تو جنرل باجوہ کو کالز آنا شروع ہوگئیں کہ ’’یہ تم کیا اُٹھا کر لے آئے ہو۔‘‘ ہم ملک میں شریعت ختم کرنے لگے ہیں اور تم شریعت کے ٹھیکیداروں کو لے آئے ہو۔ ہمیں یہ نہیں چاہیئے۔‘‘ بشریٰ بی بی کے مطابق اس کے بعد عمران خان اور ان (بشریٰ بی بی) کیخلاف میڈیا ٹرائل شروع ہوگیا اور عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنا شروع کر دیا گیا۔ حیرت ہے یہ کیسا یہودی ایجنٹ ہے، جو ننگے پاوں سرزمین مدینہ جاتا ہے، اپنے نبی (ص) کی محبت میں ننگے پاوں شہر مدینہ میں چلتا ہے۔ عمران خان کے جوتا اُتارنے سے ہی سعودی شریعت خطرے میں پڑ گئی۔؟
بشریٰ بی بی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو ادارے انہیں رپورٹس دیتے تھے۔ اداروں نے بھی عمران خان کو بتایا تھا کہ آپ کو ملک سے محبت، امریکی غلامی سے نجات، انصاف کی فراہمی اور ننگے پاوں مدینہ کی سرزمین پر چلنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ بشریٰ بی بی کے اس دعوے کہ "سعودیوں نے کہا ہم شریعت ختم کرنے جا رہے ہیں اور تم شریعت کے ٹھیکیداروں کو لے آئے ہو۔‘‘ کی صداقت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے مسلسل سعودی عرب میں ڈانسنگ کلب، سینماز، نائب کلب، شراب خانے کھلنے لگ گئے اور میوزیکل کنسرٹ ہونے لگے۔ حال ہی میں ہونیوالے کنسرٹ میں خانہ کعبہ کی شبیہہ کے گرد بے لباس ماڈلز کی واک، مولائے کائنات حضرت علیؑ کی تلوار ’’ذوالفقار‘‘ کے ماڈل کو ایک نیم برہنہ ماڈل اپنے جسم پر لپیٹ کر رقص کرتی دکھائی دیتی ہے۔
یہ سارے وہ اقدامات ہیں، جو اس جانب اشارہ ہیں کہ سعودی عرب اب شرعی حصار سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ سعودی عرب نہیں چاہتا کہ پاکستان میں کوئی ایسی ’’دیندار‘‘ حکومت ہو۔ اس لئے وہ عمران خان کی سپورٹ نہیں کریں گے۔ کیونکہ عمران خان کے اقوام متحدہ میں حرمت رسول (ص) کے موضوع پر خطاب نے پوری دنیا پر واضح کر دیا کہ پاکستان میں اسلام نافذ کرکے پاکستانیوں کو امریکی غلامی سے نجات دلائے گا۔ اس لئے عمران خان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماوں کی سادگی کہیئے کہ جس عطار کے لونڈے کے سبب بیمار ہوئے ہیں، اسی سے دوا لینے کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نے ٹرمپ کی جیت سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ ٹرمپ الیکشن جیت گئے تو عمران خان کی رہائی پکی ہے۔
یوں پاکستانی حکمرانوں کو اس بات کا بھی خوف تھا کہ شائد ٹرمپ اقتدار میں آتے ہی عمران خان کی رہائی کا ’’حکم‘‘ دیدیں گے۔ لیکن شائد پاکستانی یہ بھول گئے کہ وائٹ ہاوس میں کوئی بھی مکین ہو، پالیسیاں پینٹاگون کی ہی چلتی ہیں۔ اس لئے پینٹاگون کبھی بھی نہیں چاہئے گا کہ پاکستان امریکی غلامی سے نکلے۔ اس لئے عمران خان کی رہائی میں امریکی کردار دم توڑ دیتا ہے۔ جہاں تک کچھ عرب دوستوں کی بات ہے تو اس حوالے سے کچھ خبریں باہر آئیں کہ عمران خان کی رہائی کیلئے کچھ عرب دوست کردار ادا کر رہے ہیں اور عمران خان اس بات پر راضی ہوگئے ہیں کہ وہ رہائی کے بعد پانچ سال تک خاموش رہیں گے اور کسی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بھی نہیں بنائیں گے۔ اس رضامندی کے بعد کہا گیا کہ اب پاکستان کے طاقتور حلقے یہ چاہتے ہیں کہ جب عمران خان کو عدالت سے ہی سزا مل رہی ہے، تو اس کیلئے ریلیف دینے یا عدالتی معاملے میں مداخلت کا کیا جواز ہے۔
معاملات کو مکمل قانون کے تحت ہی چلنے دیا جائے۔ یوں پھر ڈیل درمیان میں ہی رہ گئی۔ ایک طرف حکومتی حلقے بھی پریشان ہوگئے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ عمران خان کیساتھ ڈیل کر لیتی ہے تو حکومت کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا، جس کیلئے نواز شریف اور مریم نواز کو یورپ کا دورہ کرنا پڑا اور شنید ہے کہ وہاں انہوں نے کچھ اہم ممالک کے ذمہ داران سے ملاقاتیں کیں اور امریکہ میں ٹرمپ کی حمایت حاصل کرنے کیلئے بھی رابطے کئے ہیں۔ کیونکہ یہ کام سفارتی سطح پر نہیں ہوتا، بلکہ اس کیلئے بیک چینل ڈپلومیسی سے کام لیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ٹرمپ کی جیت سے قبل دنیا کے بہت سے ممالک کو یقین ہوگیا تھا کہ ٹرمپ ہی اقتدار میں آرہا ہے اور ان ممالک نے اپنے ذرائع استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کیساتھ تعلقات بنانے کی کوششیں کی تھیں۔ اس لئے اب میاں نواز شریف نے بھی لندن اور یورپ کا دورہ کیا اور اپنے ذرائع کو متحرک کیا ہے۔
پاکستان کی اسٹیبلمشنٹ کسی طور نہیں چاہتی ہے کہ عمران خان باہر آئیں۔ اس لئے ان کیخلاف کیس پر کیس بنائے جاتے رہیں گے۔ ایک کیس ختم ہوگا تو دوسرا درج کر لیا جائے گا یا پہلے سے درج کیس میں ہی گرفتاری ڈال دی جائے گی۔ دوسرا بشریٰ بی بی کے بارے میں بھی شنید ہے کہ وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کا ’’پرانا مہرہ‘‘ ہیں۔ اور انہیں اسٹیبلشمنٹ اپنے مفاد میں استعمال کرسکتی ہے۔ حالیہ سعودی عرب کے حوالے سے اُن کا بیان اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کی جانب سے بطور پارٹی بشریٰ بی بی کے اس بیان سے اعلان لاتعلقی کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ بشریٰ بی بی عمران خان کی اہلیہ ضرور ہیں، لیکن پارٹی عہدیدار نہیں، اس لئے ان کے اس بیان کو ان کی ذاتی رائے تو کہا جا سکتا ہے، پارٹی پالیسی نہیں۔ پارٹی کا موقف چیئرمین یا سیکرٹری جنرل ہی دے گا۔ بشریٰ بی بی کے موقف کو پارٹی سے نہ جوڑا جائے۔
ادھر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان بھی لفظی جنگ جاری رہتی ہے۔ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے نالاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس آئینی عہدہ ہے، مگر وزیراعلیٰ مجھے کوئی اہمیت ہی نہیں دیتیں۔ پاور شیئرنگ فارمولا کے حوالے سے بھی نون لیگ نے پیپلز پارٹی کو ’’ٹرک کی بتی‘‘ کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ اس پر بھی گرمی سردی جاری رہتی ہے، مگر معاملات اس نہج پر نہیں پہنچے کہ جس سے کہا جائے کہ دونوں جماعتوں میں علیحدگی ہو جائے گی۔ بلاول بھٹو پارٹی کو پنجاب میں فعال کرنے کیلئے کوشاں ہیں، انہوں نے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو اس حوالے سے اہداف دے رکھے ہیں۔ انہوں نے ایگزیکٹو کمیٹی بھی بنا دی ہے، جو پارٹی کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے کوشاں ہے۔