0
Saturday 23 Nov 2024 02:09

پاراچنار میں ایک بار پھر دہشتگردی کا عظیم سانحہ۔۔۔ وجوہات کیا ہیں؟

پاراچنار میں ایک بار پھر دہشتگردی کا عظیم سانحہ۔۔۔ وجوہات کیا ہیں؟
تحریر: محمد حسن جمالی

پاراچنار میں دہشت گردی کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ یہاں کے لوگ کئی دہائیوں سے مختلف شدت پسندی کے واقعات کا شکار ہوتے آئے ہیں۔ حالیہ پاراچنار کی طرف کانوائے کی شکل میں رواں مسافروں کی بسوں پر ہونے والی دہشت گردی نے عوام کے درمیان اس نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا یہ سانحہ صرف محض حادثاتی ہے یا اس کے پیچھے کوئی منظم سازش موجود ہے؟ ہر انصاف پسند کا جواب یہ ہے کہ یہ عظیم سانحہ حادثاتی نہیں بلکہ مکمل پلان کے تحت پیش آیا ہے۔ اس دلخراش سانحے نے ہر باشعور انسان کے سامنے اس حقیقت کو اظہر من الشمس کر دیا ہے کہ موجودہ حکومت کی نااہلی اور بے حسی کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔ کانوائے میں سکیورٹی فورسز کی شکل میں ہی دہشتگرد موجود تھے، جنہوں نے دیگر عناصر سے ملکر اس انسانیت کشی پر مبنی سانحے کو معرض وجود میں لایا گیا ہے۔ اس سانحے کو وجود میں لانے کا ایک مقصد موجودہ حکومت کا اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا اور عوام الناس کی توجہ ان اس سے ہٹانا ہے۔ وہ اپنے سیاسی مفادات کو فروغ دینے کے لئے ایسے سانحات کو وجود میں لانے کے لئے مخصوص دہشتگردوں کی مالی فنڈنگ کر رہی ہے۔

پاراچنار کی اکثریت کا تعلق کربلا والوں کی مظلومیت پر آنسو بہانے والوں سے ہے۔اسی کے جرم میں اہلیان پاراچنار آئے روز یزیدیوں کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے امام سیدالشہداء حضرت حسین ابن علی (ع) کے اس عظیم درس کی عملی تصویر بنے رہتے ہیں کہ حق اور صداقت کے لئے سب کچھ لٹایا جاسکتا ہے۔ حالیہ پاراچنار کا دلخراش سانحہ جہاں امپورٹڈ حکومت کی نااہلی کا واضح ثبوت ہے، وہیں یہ مسلمانوں کے دلوں پر افسوس کے گہرے گھاؤ لگانے کا باعث بنا۔ اس سانحے کی انفرادیت یہ تھی کہ پاراچنار کے غریب و مظلوم عوام کی حفاظت پر مامور افراد میں سے کسی ایک کو بھی معمولی خراش تک نہیں آئی، وہ تو مکمل محفوظ رہے، مگر 100 سے زیادہ مظلوم بے گناہ لوگ شھید اور بے شمار زخمی اور اسیر ہونے پر مجبور ہوئے۔ کیا یہ اس بات کی واضح دلیل نہیں کہ یہ عظیم دلسوز سانحہ اتفاقی ہرگز نہیں، بلکہ موجودہ حکومت اور دہشتگردوں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔؟

کیا یہ اس بات کا روشن ثبوت نہیں ہے کہ موجودہ حکومت پوری منصوبہ بندی کے تحت پاراچنار کو غزہ بنانے پر کمربستہ ہے؟ کیا یہ اس حقیقت کی نمایاں نشانی نہیں کہ پاراچنار کی طرف سفر کرنے والے مسافروں کی سکیورٹی پر مامور افراد خود دہشتگرد ہیں۔؟ کیا یہ اس حقیقت کی علامت نہیں کہ اس سانحے کو اقتدار کے بھوکے سیاسی مداریوں نے پاکستانی عوام کی توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹانے کے لئے عمداً معرض وجود میں لایا گیا ہے؟ کیا اس سے یہ حقیقت ثابت نہیں ہوتی ہے کہ وقت کے یزیدیوں کا اصلی ہدف پاراچنار کی سرزمین سے حسینوں کو ڈرا دھمکا کر، انہیں وحشت اور بربریت کا شکار کرکے اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے اور پاراچنار کی زرخیز زمین کو طالبان کا اڈہ بنا کر سکھ کا سانس لینا ہے۔

لیکن اتنے مظالم ڈھانے کے باوجود پاراچنار کے غیور مومنین راہ حسین اور فکر حسین پر عمل پیرا رہتے ہوئے میدان میں جبل استقامت بن کر کھڑے ہیں اور اپنے حقوق کا پوری جوانمردی سے دفاع کرنے میں کوشاں ہیں۔ وہ اس بات پر باور قلبی رکھتے ہیں کہ ہم اس راہ جہاد میں اپنے عزیزوں کے گلے کٹوا کر بھی درپیش جنگ میں سرخرو ہوسکتے ہیں، ہم راست گوئی اور اصول پرستی کی سند اغیار سے بھی خوشدلی کے ساتھ حاصل کرسکتے ہیں، ہم پر مظالم کا پہاڑ گرانے والا سفاک ظالم ٹولہ اپنے سازشی عزائم میں نامراد ہونا یقینی ہے، وہ اپنے برے انجام تک پہنچنے میں ہرگز دیر نہیں لگے گی، کیونکہ یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ حق کی خاطر جان دینے والے پوری دنیا میں امر ہو جاتے ہیں اور ضرور بے گناہوں کی جان لینے والے دنیا و آخرت میں رسوا و گنہگار ٹھہریں گے۔ اس کی عملی تصویر واقعہ کربلا میں دیکھا جاسکتا ہے۔

کربلائے پاراچنار میں پے در پے بے دریغ انسانی خون بہانے کے مختلف مقاصد ہوسکتے ہیں، جن میں سرفہرست فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کی فصلیں تیار کرکے حسینیت کے دشمن یزیدیوں کا اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرکے کامیابیاں سمیٹنا ہے۔ جب سے امپورٹڈ حکومت برسراقتدار آئی ہے، کرم ایجنسی میں مختلف بہانوں سے متعدد بار حالات ناگفتہ ہوگئے ہیں، جن میں بے شمار انسانی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے، دہشتگردی کے مسلسل واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ جب تسلسل سے سانحات پیش آئے اور پاراچنار کے غریب لوگوں کے لئے پشاور، پنڈی اور اسلام آباد کی طرف سفر کرنا محال ہوا تو موجودہ غاصب حکمرانوں نے عوام فریبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے برای نام کانوائے سسٹم کو فعال کیا اور پاراچنار کے مظلوم عوام کو یقین دہانی کرائی گئی کہ ہم فل سکیورٹی حصار میں سو دو سو گاڑیوں میں مسافروں کو لے جائیں گے اور ان کے سفر بخیری کو یقینی بنائیں گے۔

تمہیں اپنے سفر کے حوالے سے خوفزدہ رہنے کی کوئی ضرورت نہیں، مگر حالیہ کانوائے پر ہونے والی دہشتگردی کے عظیم دلخراش سانحے نے اپنی زبان بے زبانی سے یہ اعلان کر دیا ہے کہ پاراچنار کے عوام کے اعصاب پر طاری خوف کے مہیب سائے کم ہونے کے بجائے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاراچنار میں ہونے والا حالیہ سانحہ ایک دردناک واقعہ تھا، جس نے پاکستان کے پورے معاشرے میں غم و غصے کی لہر پیدا کی ہے، اس واقعے نے عوام میں عدم اعتماد کی فضا پیدا کی ہے۔ توجہ رہے کہ اس  سانحے کو وجود میں لانے کا سیاسی ایک اہم مقصد خیبر پختونخواہ کے وزیراعلی علی امین گنڈا پور کی سیاسی ساکھ کو متاثر کرنا ہے، کیونکہ ان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور گنڈاپور کا شمار عمران خان کے نڈر و بیباک شجاع لیڈروں میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اس سانحے کے بعد امپورٹڈ حکومت کے لابی مختلف ذرائع سے عوام کے ذہنوں میں اس بات کو بٹھانے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی قیادت برسراقتدار ہے اور علی امین گنڈا پور کی قیادت میں عوام کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔ اگر ہماری پارٹی کے بندے وہاں اقتدار پر ہوتے تو یہ صورتحال ہرگز دیکھنے کو نہ ملتی۔

پاراچنار کی حالت زار اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہاں کے لوگ روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی، حکومتی بے حسی اور خوارجی گروہوں کی بدمعاشی کا سامنا کر رہے ہیں۔ عوام کا سوال ہے کہ کیا ان کی سرزمین صرف قربانی کا میدان ہے؟ حکومت اور سکیورٹی ادارے سیاسی کھیلوں میں مصروف ہیں، جبکہ پاراچنار کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ یہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ ریاست فوری طور پر سنجیدہ اقدامات کرے، جن گھونسلوں میں دہشتگرد چھپ کر وار کرتے ہیں، ان تمام مقامات پر فوراً آپریشن کیا جائے، کیونکہ یہ سانحہ صرف ایک حملہ نہیں بلکہ انسانیت پر بہت بڑا حملہ ہے، جس نے پورے پاکستانی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ پاراچنار کے عوام کی قربانیاں اور ان کے درد کی داستانیں پاکستان کے ذمہ داروں کو انصاف اور تحفظ کی ضرورت کی یاد دلاتی ہیں۔ پاراچنار میں ایک بار پھر دہشتگردی کا عظیم سانحہ۔۔۔ وجوہات کیا ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 1174223
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش