1
Wednesday 20 Nov 2024 18:14

امریکی خصوصی ایلچی کا دورہ لبنان، آیا جنگ بندی قریب ہے؟

امریکی خصوصی ایلچی کا دورہ لبنان، آیا جنگ بندی قریب ہے؟
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر رای الیوم)
 
تمام تر شواہد سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ لبنان کے محاذ پر کسی قسم کی جنگ بندی دور از امکان ہے۔ خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے گذشتہ روز (منگل 19 نومبر) اپنی اس تقریر کو بھی غیر متوقع طور پر موخر کر دیا ہے جس کا پہلے سے اعلان کیا جا چکا تھا۔ لبنان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی، اموس ہوچسٹین، جس کی پیدائش غاصب صیہونی رژیم کے اسپتال میں ہوئی تھی اور وہ صیہونی فوج میں سروس کر چکا ہے جبکہ اس کا نام اب بھی صیہونی ریزرو فوج کی فہرست میں شامل ہے، نے کل لبنان کا دورہ کیا اور حکومتی سطح پر مذاکرات انجام دیے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اموس ہوچسٹین لبنانیوں کے عشق اور محبت میں لبنان نہیں آیا بلکہ اس کے دورے کا بنیادی مقصد غاصب صیہونی رژیم کے مفادات کا حصول اور اس کی دشمنانہ آرزووں کی تکمیل ہے۔
 
لبنان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی اموس ہوچسٹین اب تک 13 بار لبنان کا دورہ کر چکا ہے جن میں سے 12 دورے ناکامی کا شکار ہوئے ہیں اور صرف ایک دورہ کامیاب رہا ہے جس کا مقصد لبنان اور غاصب صیہونی رژیم کے درمیان سمندری حدود کا تعین تھا۔ ہوچسٹین کے اس واحد کامیاب دورے کا فائدہ بھی غاصب صیہونی رژیم کو پہنچا اور کیرش آئل فیلڈ پر صیہونی قبضہ قائم ہو گیا۔ نہیں معلوم اموس ہوچسٹین کس منہ سے مذاکرات میں کامیابی اور جنگ بندی قریب ہونے کی باتیں کر رہا ہے، جبکہ دوسری طرف صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اس بات پر زور دے رہا ہے کہ حتی جنگ بندی معاہدہ انجام پانے کے بعد بھی حزب اللہ لبنان کے خلاف فوجی کاروائی جاری رہے گی۔ سب سے اہم یہ کہ بنجمن نیتن یاہو نے جنگ بندی قبول کرنے کے لیے تین شرطیں پیش کی ہیں جو درج ذیل ہیں:
 
1)۔ امریکہ اس بات کی گارنٹی فراہم کرے کہ جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیل کو لبنان پر ایسے فضائی حملے جاری رکھنے کی کھلی چھٹی ہو گی جو اس وقت شام کی سرزمین پر انجام پا رہے ہیں،
2)۔ حزب اللہ کی فورسز دریائے لیتانی کے شمال تک پیچھے ہٹ جائیں گی اور یوں اسرائیل کی سرحد سے دور ہو جائیں گی،
3)۔ ایران کی جانب سے شام کے راستے حزب اللہ لبنان کو فراہم کی جانے والی لاجسٹک سپورٹ مکمل طور پر ختم کر دی جائے گی۔
شاید اس بات پر توجہ بھی ضروری ہو کہ اموس ہوچسٹین ایسی امریکی حکومت کا خصوصی ایلچی ہے جس کی پارٹی حالیہ صدارتی الیکشن میں ہار چکی ہے اور مدت حکومت ختم ہونے میں باقی رہ جانے والے دو ماہ میں اس کی پہلی ترجیح اندرونی معاملات نمٹانا ہے اور فی الحال اس کی تمام تر توجہ عالمی جنگ اور شاید روس کے خلاف جوہری جنگ پر مرکوز ہے۔
 
دوسری طرف حزب اللہ کے بہادر سپوتوں نے کل رات امریکہ کے خصوصی ایلچی کا بہت اچھی طرح استقبال کیا اور "فاتح" گائیڈڈ میزائلوں سے تل ابیب کے مرکز میں ایک صیہونی فوجی اڈے کو نشانہ بنا ڈالا۔ اس حملے میں 6 صیہونی فوجیوں کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ تل ابیب پر حزب اللہ لبنان کے میزائل حملے کے نتیجے میں بن گورین انٹرنیشنل ایئرپورٹ بھی بند ہو گیا اور شہر کے مختلف حصوں میں شدید آتش سوزی کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں۔ اسی طرح 20 لاکھ کے لگ بھگ صیہونی آبادکار بھی فوری طور پر زیر زمین پناہ گاہوں میں گھسنے پر مجبور ہو گئے۔ ہماری نظر میں ہوچسٹین کے دورہ لبنان کا یہ بہترین عملی اور فیصلہ کن جواب تھا کیونکہ اس دورے کا واحد مقصد لبنان میں فتنہ انگیزی کر کے حزب اللہ لبنان اور غزہ میں جاری اسلامی مزاحمت کے درمیان دوریاں پیدا کرنا ہے۔
 
بنجمن نیتن یاہو اس وقت بھی جو بائیڈن کو شدید حقارت آمیز رویے کا نشانہ بنا کر اس کے مطالبات کو پس پشت ڈال دیتا تھا جب امریکی صدر اپنے طاقت کے عروج پر تھا، اور آج جب بائیڈن کی پوزیشن انتہائی کمزور ہے اور وہ نہ صرف صدارتی امیدوار کی حیثیت سے دستبرداری پر مجبور ہو گئے تھے بلکہ ان کی پارٹی کو بھی صدارتی الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، آیا یہ توقع رکھنا بجا ہے کہ نیتن یاہو اس کے ایلچی کو اہمیت دے گا اور جنگ بندی کے لیے اس کی پیش کردہ شروط مان لے گا؟ اور لبنان یا دوحہ یا قطر میں انجام پانے والے معاہدوں کی پاسداری کرے گا؟ کیا بنجمن نیتن یاہو اس حد تک احمق اور نادان ہے کہ ایسے صدر کے کہنے پر جنگ بندی کا معاہدہ انجام دے گا جس کی مدت صدارت ختم ہونے میں صرف دو ماہ کا وقت باقی ہے؟ اس بات کی بہترین دلیل خود نتین یاہو کا یہ بیان ہے: "بائیڈن نے ہمیں دھمکی دی کہ رفح پر حملے کی صورت میں فوجی امداد روک دے گا، ہم نے اس کی بات نہیں سنی اور فوجی امداد بھی نہیں رکی۔"
 
حزب اللہ لبنان کے مجاہدین سے بڑھ کر کوئی بھی اسرائیل اور اس کے ایلچیوں کو اچھی طرح نہیں پہچانتا۔ انہوں نے اموس ہوچسٹین کے بیروت ایئرپورٹ پر پہنچتے ہی مقبوضہ فلسطین کے شمال میں مشرقی الجلیل کے شہر صفد اور گلیلوت فوجی اڈے پر 75 میزائل داغ دیے۔ گویا وہ ہوچسٹین کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ: "صلح اور جنگ کا فیصلہ صرف اور صرف میدان جنگ میں ہو گا جہاں ہم کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں اور جنگ بندی بھی ہماری شروط کے تحت انجام پائے گی۔" ہوچسٹین غاصب صیہونی رژیم کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے اور اس کے دشمنانہ منصوبوں پر عمل پیرا ہے، لیکن حزب اللہ لبنان کے مجاہدین شہید سید حسن نصراللہ کی راہ پر گامزن ہیں اور ان کی آخری وصیت پر عمل پیرا ہیں۔ شہید سید حسن نصراللہ نے آخری تقریر میں کہا تھا: "لبنان کا محاذ فلسطین سے جدا نہیں ہو سکتا اور ہم غزہ کو شکست کا شکار نہیں ہونے دیں گے، جو بھی لبنان میں جنگ بندی چاہتا ہے اسے چاہیے کہ پہلے غزہ میں جنگ بندی کرے۔"
خبر کا کوڈ : 1173744
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش