تحریر: ہادی محمدی
غاصب صیہونی رژیم کی فوج کے کرنل، اموس ہوچسٹین، نے حال ہی میں لبنان کے لیے خصوصی امریکی ایلچی کی حیثیت سے بیروت کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کا مقصد امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے یکطرفہ طور پر تیار کیے گیے جنگ بندی معاہدے کی دستاویز کے بارے میں لبنان حکومت سے بات چیت کرنا تھا۔ یہ دورہ ایسے وقت انجام پایا جب صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کینسٹ (صیہونی پارلیمنٹ) کے اجلاس میں جنگ کے دوران لبنان حکومت سے مذاکرات پر زور دیا تھا۔ میدان جنگ کی صورتحال یہ ہے کہ گذشتہ چند دنوں میں صیہونی فوج نے مغربی محاذ سے لبنانی گاوں شمع کی جانب پیشقدمی کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس مقصد کے لیے صیہونی فوج نے لبنانی شہر صور کے جنوب سے لے کر ناقورا تک شدید جانی نقصان کے باوجود حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نیتن یاہو کے نئے وزیر جنگ نے جنوبی لبنان کے اندر 8 کلومیٹر تک علاقے پر فوجی قبضہ کرنے کی حکمت عملی جاری رکھی ہوئی ہے اور اس مقصد کے لیے ان علاقوں پر شدید فضائی جارحیت بھی انجام پا رہی ہے۔ یوں غاصب صیہونی حکمران ذرائع ابلاغ میں اپنے فاتح ہونے کا پروپیگنڈا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ آئندہ مذاکرات میں ان کے پاس ایک جیتنے والا کارڈ بھی ہو اور مذاکرات میں ان کا پلڑا بھاری رہے۔ دوسری طرف اموس ہوچسٹین، سفارتکاری کے میدان میں وہ اہداف و مقاصد حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جنہیں صیہونی حکمران میدان جنگ میں حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ہوچسٹین شہید سید حسن نصراللہ اور حزب اللہ لبنان کے دیگر اعلی سطحی کمانڈرز اور رہنماوں کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق صیہونی موقف پر زور دے رہا ہے جبکہ لبنانی حکومت سے مذاکرات کے ذریعے حزب اللہ لبنان کو دیوار سے لگانے کے درپے بھی ہے۔
اموس ہوچسٹین کی جانب سے لبنانی حکومت سے مذاکرات کا مقصد حزب اللہ لبنان کو ملکی امور سے بے دخل کر کے غاصب صیہونی رژیم کو لبنان جنگ میں شکست کی دلدل سے باہر نکالنا ہے۔ اگلے مرحلے میں امریکہ، برطانیہ اور فرانس پر مشتمل تین رکنی کمیٹی تشکیل دے کر لبنان پر مغربی طاقتوں کا تسلط یقینی بنانا اور دھیرے دھیرے اسلامی مزاحمت کی طاقت ختم کر دینا مقصود ہے۔ اس کا واضح نتیجہ لبنان کی خودمختاری اور رٹ کو ٹھیس پہنچنے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ لیکن لبنان پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری نے انتہائی عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اموس ہوچسٹین کی پیشکش مسترد کر دی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ لبنان جنگ کا واحد راہ حل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1701 کا اجراء ہے۔ نبیہ بری نے تاکید کی ہے کہ اس قرارداد میں نہ کسی چیز کا اضافہ کیا جائے گا اور نہ ہی کمی اور وہ جیسے ہے ایسے ہی لاگو ہو گی۔
گذشتہ چند ہفتوں کے دوران لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان نے مقبوضہ فلسطین کے شمالی علاقوں سے لے کر اس کے مرکز تل ابیب اور اس سے بھی آگے تک کے علاقوں کو شدید میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا ہے، جس کے نتیجے میں صیہونی حکومت، صیہونی آبادکار، صیہونی معیشت اور صیہونی رژیم کے تمام اہم ستون شدید اسٹریٹجک صدمات کا شکار ہوئے ہیں۔ بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے لبنان پر فضائی جارحیت جاری رکھنے کے فیصلے کو امریکی ایلچی اموس ہوچسٹین اور اس کے درمیان کام کی تقسیم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اموس ہوچسٹین کی جانب سے بیروت میں نبیہ بری اور نجیب میقاتی سے ملاقات دراصل اس بات کی مایوسانہ کوشش تھی کہ امریکہ اور صیہونی رژیم کی جانب سے مطلوبہ شروط پر مشتمل جنگ بندی معاہدہ لبنان حکومت پر مسلط کیا جا سکے۔
لیکن اب تک سامنے آنے والے تمام شواہد سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کوشش پوری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ لہذا اب صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایک بار پھر غزہ کا رخ کیا ہے اور پوری طاقت سے "جرنیلوں کے منصوبے" کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں مظلوم اہل غزہ پر وحشیانہ جارحیت اور ان کا قتل عام اسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے۔ اسی طرح وہ شدید فوجی اور جانی نقصان کے باوجود لبنان کے اندر تک پیشقدمی کرنے کے درپے بھی ہے تاکہ اس طرح سیاسی اور سفارتی میدان میں ہونے والی شکست کا ازالہ کر سکے۔ دوسری طرف بنجمن نیتن یاہو کو چند اہم مشکلات کا سامنا ہے جن میں سے ایک امریکہ کی جانب سے محدود مدت تک فراہم کی گئی مہلت ہے۔ اسی طرح غزہ اور لبنان جنگ میں ہونے والا شدید جانی اور مالی نقصان بھی ہے جبکہ صیہونی رژیم کے اندرونی حالات بھی انتہائی درجہ بحرانی اور متزلزل ہیں۔
حال ہی میں صیہونی سپریم کورٹ نے بنجمن نیتن یاہو کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے خلاف جاری مقدمات کے لیے آئندہ پیشی یقینی بنائے۔ دوسری طرف نیتن یاہو کے دفتر سے لیک ہونے والی خفیہ دستاویزات کا مسئلہ بھی ہے جس کے بارے میں تحقیق جاری ہے۔ اموس ہوچسٹین کے پاس بھی زیادہ وقت نہیں ہے اور وہ زیادہ عرصے تک لبنان کے لیے امریکہ کا خصوصی ایلچی باقی نہیں رہ سکتا۔ ہوچسٹین اگر مذاکرات اور سفارتکاری میں کچھ حد تک کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے لبنان حکومت کے قانونی مطالبات پر بھی توجہ دینا پڑے گی اور جنگ بندی سے متعلق پیشکش میں اہم تبدیلیاں لانی پڑیں گی ورنہ وہ عنقریب یہ ذمہ داری ٹرمپ کے خصوصی ایلچی کو سونپنے پر مجبور ہو جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی صدارت کے آغاز پر ہی مشرق وسطی کی وسیع سیکورٹی دلدل میں غرق ہونا نہیں چاہے گا اور جلد از جلد جنگ کا دائرہ محدود کرنے کی کوشش کرے گا۔