تحریر: سید رضی عمادی
اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعمیری تعاون کے باوجود تین یورپی ممالک اور امریکہ اس تعاون و تعمیری تعامل کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ امریکہ اور یورپی ٹرائیکا کی سازش سے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز نے ایران کے خلاف ایک نئی قرارداد منظوری کی ہے۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی طرف سے تجویز کردہ اس قرارداد کی امریکہ نے حمایت کی تھی، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں ہونے والی ووٹنگ میں کونسل کے کل 35 رکن ممالک میں سے 19 ممالک نے تین یورپی طاقتوں اور امریکہ کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، 12 ممالک (الجزائر، آرمینیا، بنگلہ دیش، برازیل، کولمبیا، مصر، گھانا، بھارت، انڈونیشیا، پاکستان، جنوبی افریقہ اور تھائی لینڈ) نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، جبکہ روس، چین اور برکینا فاسو نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ وینزویلا کو ممبرشپ فیس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ لینے کا حق نہیں تھا۔
گذشتہ چھ مہینوں میں ایران کے خلاف یہ دوسری قرارداد ہے۔ جے سی پی او اے کے نفاذ اور ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف حفاظتی دعووں کے کیس کے بند ہونے کے بعد یہ پانچویں قرارداد ہے، جسے مغربی ممالک نے ایران کے خلاف منظور کیا ہے۔اس قرارداد میں تہران سے کہا گیا ہے کہ وہ مبینہ حفاظتی مسائل کو حل کرنے کے لیے "ضروری اور فوری اقدامات" کرے۔ یہ قرارداد آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ مارچ میں بورڈ آف گورنرز کے اگلے اجلاس سے قبل ایران کی جوہری سرگرمیوں اور آئی اے ای اے کے ساتھ ایران کے عدم تعاون کے بارے میں ایک جامع رپورٹ پیش کرے۔ اس قرارداد کی منظوری کو بنیادی طور پر ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز میں یورپی ممبران کی خواہش سے منسوب کیا جانا چاہیئے۔
اس قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ممالک میں امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ ساتھ نو یورپی ممالک بھی شامل ہیں، جو ہمیشہ ایران مخالف پالیسیاں رکھتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ روس کے علاوہ کسی بھی یورپی ملک نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ نہیں دیا اور نہ ہی اس کی مخالفت کی۔ جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور ارجنٹائن بھی ان ممالک میں شامل ہیں، جو اکثر امریکی پالیسیوں کے مطابق حرکت کرتے ہیں۔ البتہ کونسل آف گورنرز میں قرارداد کی منظوری سے قبل کور گروپ کے رکن ممالک بشمول بیلاروس، چین، کیوبا، نکاراگوا، روس، شام، وینزویلا، زمبابوے اور ایران نے بورڈ گورنرز میں ایک مشترکہ بیان جاری کرکے، تینوں یورپی ممالک کی طرف سے پیش کردہ قرارداد کی مذمت کی اور اسے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی میں فیصلہ سازی کے عمل کے غلط استعمال کی مثال قرار دیا۔
ایک کمزور اور غیر متفقہ قرارداد
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اس قرارداد کو ایک کمزور قرارداد کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے مطابق یہ "غیر متفقہ" ہے، کیونکہ وینزویلا سمیت 16 ممالک نے حقیقت میں اس قرارداد سے اتفاق نہیں کیا۔ دوسرے الفاظ میں، 16 ممالک کا خیال ہے کہ قرارداد تکنیکی سے زیادہ سیاسی ہے اور یہ ایران کے جوہری پروگرام اور ایجنسی کے ساتھ ایران کے تعامل کی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔
یورپ اور امریکہ کا سیاسی اور بلا جواز اقدام
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ تین یورپی ممالک نے امریکہ کی حمایت سے آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل کے دورہ ایران کے نتائج کا انتظار کیے بغیر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز میں ایک نئی قرارداد کی تجویز اور منظوری دی۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے 13 نومبر کو تہران کے دورے کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے ملاقات اور مشاورت کی تھی۔ رافیل گروسی نے گذشتہ تین سالوں میں پانچویں مرتبہ ایران کا سفر کیا، جہاں انہوں نے اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کے علاوہ نطنز اور فردو جوہری مقامات کے کچھ جدید حصوں کا بھی دورہ کیا۔
بہرحال تین یورپی ممالک اور امریکہ کی اس کارروائی کو "خالص طور پر سیاسی" ایکشن تصور کیا جانا چاہیئے، جس سے ایجنسی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے، کیونکہ یہ قرارداد ایجنسی کو تکنیکی نوعیت سے ہٹا کر سیاسی کھیل میں لے جائے گی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اقدام نے ایسے وقت میں جب ایران اور ایجنسی تعمیری بات چیت کی راہ پر گامزن ہیں، اس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ تینوں یورپی حکومتیں اور امریکہ، ایجنسی کی ساکھ کو برقرار رکھنے کی بجائے اسے خراب کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔یورپی ٹرائیکا ایران کے جوہری پروگرام کے بہانے اپنے ناجائز مقاصد کو آگے بڑھانے میں کوشاں ہیں۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ تین یورپی ممالک اور امریکہ کا یہ غیر قانونی اقدام اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے ایٹمی مفادات کے تحفظ کے لیے چند نئے اقدامات انجام دینے کا سبب بنے گا۔ بورڈ آف گورنرز کی قرارداد کے بعد ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سربراہ نے متعدد اقسام کے نئے اور جدید سینٹری فیوجز کی ایک بڑی تعداد کو لانچ کرنے سمیت موثر اقدامات کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ بلاشبہ اس طرح کے معاندانہ رویوں کا تسلسل اسلامی جمہوریہ ایران کے جوہری حقوق کے حصول کے لیے دیگر اقدامات کی بنیاد بن سکتا ہے۔