ترتیب و تنظیم: علی واحدی
فلسطین اور مزاحمت کی تاریخ کے اتار چڑھاؤ میں ایسے بیسیوں بہادر لیڈروں کے نام سامنے آتے ہیں، جو ثابت قدمی اور آہنی عزم کے ساتھ ظلم کے خلاف ڈٹے رہے۔ یہ رہنماء مزاحمت اور آزادی کی علامت ہیں، جنہوں نے صیہونی حکومت کی دہشت گردی اور تشدد کے سائے میں اپنے مقدس نظریات کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ حق طلب آواز کو خاموش کرنے اور فلسطینی قوم کے عزم کو دبانے کے مقصد سے کیے جانے والے قاتلانہ حملے نہ صرف اس قوم کے عزم کو کمزور کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ ہر بار یہ اقدامات اس جدوجہد کی آگ کو مزید بھڑکانے کا باعث بنے۔ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین سے لے کر لبنانی حزب اللہ مزاحمت کے لیجنڈری کمانڈر عماد مغنیہ تک اور اسماعیل ہنیہ سے شہید شکر تک، ان شخصیات میں سے ہر ایک نے اپنے خون سے آزادی کے درخت کو سیراب کیا اور یہ ثابت کیا کہ دہشت گردی مزاحمتی نظریات کی ترقی اور فتح کو نہیں روک سکتی۔
یہ قتل عام نہ صرف صیہونی حکومت کی کمزوری اور خوف کی علامت ہیں بلکہ فلسطینیوں اور مزاحمت کے عالمی حامیوں کے درمیان عہد اور یکجہتی کی تجدید کا موقع بھی ہیں۔ ہر دہشت گردانہ حملے سے فلسطینی قوم، اتحاد اور مزاحمت کی ضرورت کا گہرا ادراک حاصل کرتی ہے اور اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ فتح صرف یکجہتی اور مزاحمت کے ذریعے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس رپورٹ میں ہم فلسطینی رہنماؤں کے قتل کی تاریخ اور لبنان میں مزاحمت اور تحریک مزاحمت پر اس کے اثرات کا جائزہ لیں گے، تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ کس طرح ان اقدامات نے فلسطینی قوم کے عزم کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مضبوط کیا ہے۔
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو بدھ 10 اگست کی صبح تہران میں ان کی رہائش گاہ میں قتل کر دیا گیا اور وہ اپنے ایک محافظ سمیت شہید ہوگئے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو صیہونی حکومت نے شہید کیا ہے، اسی کی دہائی میں صیہونی حکومت نے فلسطین کے اندر اور باہر 2700 سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ 2000ء سے 2020ء تک اس حکومت کی طرف سے تقریباً 430 ممتاز فلسطینی شخصیات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ فلسطینی مزاحمت کی اہم شخصیات کی ایک بڑی تعداد صیہونی حکومت کے قاتلانہ حملے میں بچ گئی اور ان میں سے بعض کئی ناکام قتلوں کے بعد شہید ہوگئے۔ شہداء کی زیادہ تعداد سب کو جانچنے کی اجازت نہیں دیتی۔ بہرحال، ذیل میں قتل ہونے والی چند ممتاز فلسطینی شخصیات کا ذکر کیا جائے گا۔
ممتاز شہداء
شیخ احمد یاسین، ایک فلسطینی مجاہد عالم، تحریک حماس کے بانی رہنماء تھے۔ 1983ء میں، انہیں ہتھیار رکھنے، ایک فوجی تنظیم بنانے اور اسرائیل کے خلاف سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، ان پر اسرائیلی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا اور 13 سال قید کی سزا سنائی گئی، لیکن بعد میں قیدیوں کے تبادلے میں رہا کر دیا گیا تھا۔ لیکن 22 مارچ 2004ء کو شیخ احمد یاسین کو 68 سال کی عمر میں قابض حکومت نے ایک حملے میں قتل کر دیا۔ عبدالعزیز رنتیسی حماس کے بانیوں میں سے ایک تھے، جو شیخ احمد یاسین کے قتل کے بعد ان کی جانشین بنے۔ 7 اپریل 2004ء کو رانتیسی کو غزہ کے شمال میں ہیل فائر میزائل سے نشانہ بنایا گیا اور وہ 57 سال کی عمر میں اپنے بیٹے اور محافظ سمیت شہید ہوگئے۔
یحییٰ عیاش، جن کا کوڈ نام "انجینئر" ہے، فلسطینی مزاحمت کے لیجنڈز میں سے ایک تھا، جنہیں 1995ء میں ان کے موبائل فون میں رکھے گئے بم سے قتل کر دیا گیا۔عماد حسین ابراہیم عقل، قسام بٹالین کے کمانڈروں میں سے ایک تھے، جن کا نومبر 1993ء میں اپنے گھر سے نکلتے وقت محاصرہ کیا گیا، وہ فائرنگ کے تبادلے اور متعدد اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بعد شہید ہوگئے تھے۔ عیسیٰ عبدالهادی البطران، تیسیر ابوسنیمه، رائد العطار، عدنان الغول، محمد ابوشماله، محمد برهوم، احمد الجعبری، صلاح شحاده، صلاح ابو حسنین، سعید صیام، نزار ریان، مازن فقها، اسماعیل ابوشنب سمیت دیگر فلسطینی اس فہرست میں شامل ہیں۔
یہ فلسطین کے کچھ مزاحمتی رہنماء تھے۔ مزاحمت ایک متواتر رجحان و جدوجہد ہے اور اسے فلسطین یا لبنان میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ مزاحمت کی ناگزیریت، ان کے نظریاتی تعلق کے علاوہ، اسرائیل کے ساتھ ان کی مشترکہ دشمنی سے بھی پیدا ہوتی ہے، کیونکہ صیہونی حکومت نے مزاحمت کے دونوں محوروں کی سرزمین پر حملہ کرکے ان پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اسی وجہ سے لبنان میں مزاحمتی رہنماؤں کا قتل اس حکومت کے منصوبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جو فلسطین میں قائدین کے قتل سے بھی زیادہ اہم ہے۔
ان قتلوں کی کچھ مثالیں
غسان کنفانی جو کہ معروف ادیب و مصنف اور پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ وہ بیروت میں ایک گاڑی میں دیسی ساختہ بم پھٹنے سے شہید ہوگئے۔ لبنان میں اسلامی جہاد کے رکن محمد النجار، فتح تحریک کے ارکان کمال عدوان اور کمال ناصر کو اپریل 1973ء میں بیروت میں قتل کر دیا گیا۔ حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل سید عباس الموسوی 1992ء میں لبنان میں اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوگئے تھے۔ فلسطینی اسلامی جہاد گروپ کے ایک اور سینءئر رہنما فادی البطش کو 2018ء میں لبنان میں قتل کر دیا گیا تھا۔ 2 جنوری 2024ء کو صالح العروری بیروت کے جنوب میں اسرائیلی ڈرون حملے میں شہید ہوگئے۔ وہ حماس کی ان آخری اہم شخصیات میں سے ایک تھے، جنہیں اسماعیل ہنیہ سے پہلے صیہونی حکومت نے شہید کیا تھا۔
حزب اللہ کے ایک اور اعلیٰ فوجی کمانڈر فواد شکر کو اسرائیل نے 30 جولائی 2024ء کو بیروت میں قتل کر دیا تھا۔ سرحد پار قتل عام موساد کی روایت ہے۔ ہنیہ کا قتل ایران میں ہوا؛ لیکن اسرائیل کے ہاتھوں کسی دوسرے ملک کی سرزمین میں فلسطینی مزاحمتی رہنماء کا قتل کوئی نیا عمل نہیں ہے اور اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ لبنان، شام، اردن، متحدہ عرب امارات، ملائشیا، فرانس، تیونس، اٹلی اور بلغاریہ ایسے ممالک میں سے ہیں، جہاں صیہونی حکومت نے دوسرے ممالک کی خود مختاری کو پامال کرتے ہوئے ان ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں۔
اردن
ستمبر 1997ء میں موساد انٹیلی جنس سروس کے دس ارکان اردن کے دارالحکومت عمان میں اس حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے حکم سے کینیڈا کے جعلی پاسپورٹ کے ساتھ داخل ہوئے۔ موساد کے دو ایجنٹوں نے عمان کی مصفی الطال اسٹریٹ پر مشعل پر انتہائی زہریلے مادے سے حملہ کیا، لیکن اردنی پولیس اور مشعل کے محافظوں نے فرار ہوتے ہوئے انہیں گرفتار کرلیا۔ اردن کے اس وقت کے بادشاہ حسین بن طلال نے نیتن یاہو سے کہا کہ وہ اس مہلک زہر کا تریاق اردن پہنچا دیں۔ مشعل اس قتل میں بال بال بچ گئے۔ اردنی حکام نے قید کی سزا پانے والے حماس تحریک کے بانی احمد یاسین کی رہائی کے بدلے موساد کے 2 ارکان کو رہا کر دیا۔
شام
شام ان ممالک میں سے ایک ہے، جہاں صیہونی حکومت نے دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے بارہا اس ملک کی خود مختاری کی خلاف ورزی کی ہے اور وہاں کے مزاحمتی کمانڈروں کو قتل کیا ہے۔ ان لوگوں میں ہم حماس تحریک کے رکن عزالدین الشیخ خلیل کا ذکر کرسکتے ہیں جو ستمبر 2004ء میں دمشق میں ایک کار دھماکے میں شہید ہوگئے تھے۔ حزب اللہ کے ایک اور اعلیٰ کمانڈر عماد مغنیہ عرف حاج رضوان کو اسرائیل نے 2008ء میں شام کے شہر دمشق میں قتل کر دیا تھا۔ حزب اللہ کے کمانڈروں میں سے ایک مصطفیٰ بدرالدین 2016ء میں شام میں شہید ہوگئے تھے۔ اسرائیل بالواسطہ طور پر اس قتل عام کا ذمہ دار ہے۔ عماد مغنیہ کے بیٹے جہاد مغنیہ کو 2015ء میں شام میں قتل کر دیا گیا تھا۔
تیونس
فلسطین کی آزادی کی تحریک کی دوسری شخصیت خلیل الوزیر کو اپریل 1988 میں تیونس میں ان کے گھر میں شہید کر دیا گیا تھا۔ محمد الزواری جو کہ تیونس کے فلائٹ انجینئر اور قسام بٹالینز کے کمانڈروں میں سے ایک اور ان بٹالینز کے ڈرونز کے ڈیزائن کے ذمہ دار تھے، 15 دسمبر 2016 کو تیونس کے اپنے آبائی شہر سفیکس میں شہید ہوگئے۔
امارات
جنوری 2010ء میں، اسرائیل نے دبئی کے ایک ہوٹل میں محمود المبحوح کو قتل کر دیا، جو عزالدین قسام بٹالین کے کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ موساد کے کئی ایجنٹ آسٹریلیا سمیت کئی بیرونی ممالک کے پاسپورٹوں کے ساتھ دبئی میں داخل ہوئے، ہوائی اڈے کے سی سی ٹی وی کیمروں کے سامنے سے گزر کر انہوں نے المبحوح کو اس ہوٹل میں قتل کر دیا، جہاں وہ ٹھہرے تھے۔ اسرائیل صرف پڑوسی ممالک، مغربی ایشیاء اور اسلامی ممالک میں دہشت گردی نہیں کرتا، بلکہ اس حکومت کی یورپی ممالک اور مشرق بعید میں بھی جرائم کی ایک تاریخ ہے۔
مالٹا کا جزیرہ
فلسطین میں اسلامی جہادی تحریک کے بانی اور اس کے جنرل سیکرٹری فتحی شقاقی کو اکتوبر 1995ء میں مالٹا کے جزیرے پر اس وقت شہید کر دیا گیا، جب وہ لیبیا کے دورے سے واپس آئے تھے۔ اس وقت کے وزیراعظم اسحاق رابن نے موساد کو شقاقی کو قتل کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
بلغاریہ
عمر النیف پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے رکن تھے، جنہیں فروری 2016ء میں بلغاریہ میں فلسطینی سفارت خانے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ فلسطینی علمی شخصیت فادی البطش کو ملائیشیا میں شہید کیا گیا۔
فرانس
الفتح تحریک نے موساد پر جون 1992ء میں پیرس میں تحریک کے سکیورٹی افسر عاطف بیسو کو قتل کرنے کا الزام لگایا۔ جن ممالک میں اسرائیلی قتل و غارت گری ہوئی، ان کے کیس اسٹڈی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حکومت اپنے مقاصد کے حصول میں دوست یا دشمن کو نہیں پہچانتی اور فرانس، اٹلی، متحدہ عرب امارات یا ملائیشیا میں بھی لوگوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ اسرائیل نے تہران میں ہنیہ کو قتل کیا۔ لیکن اس نے انہیں دوحہ میں قتل کیوں نہیں کیا؟ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ دوحہ کے ساتھ اپنے تعلقات کی پرواہ کرتا ہے، بلکہ اس حکومت کا مقصد ایران کو اس مشکل میں گھسیٹنا تھا، جس میں وہ خود پھنسا ہوا ہے، تاکہ وہ جنگ کو پھیلا کر اس نازک وقت میں امریکہ کو اپنے ساتھ ملا سکے۔
اگر ہم حماس کے ناقابل مصالحت موقف کو اسرائیل کے ہاتھوں اس کے قائدین کے قتل کی وجہ سمجھیں تو یہ بھی بہت سادہ ہے، کیونکہ اس حکومت نے ماضی میں دکھایا ہے کہ اس نے اپنے سب سے زیادہ اتحادی یا قریب ترین فلسطینیوں کو قتل کیا ہے، جو اسرائیل کے ساتھ بات چیت میں بھی شامل تھے، یعنی فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ یاسر عرفات۔ ان کا حیاتیاتی قتل بھی ایسی ہی ایک مثال ہے۔ یاسر عرفات فلسطینی اتھارٹی کے سابق سربراہ اور بین الاقوامی سطح پر نمایاں ترین فلسطینی شخصیات میں سے ایک تھے۔ 1950ء کی دہائی کے آخر میں، اس نے الفتح تحریک کی بنیاد رکھی اور کئی عرب ممالک میں ایک نیم فوجی تنظیم کے طور پر سرگرم رہی، جو اسرائیل کی تباہی کے لیے کام کر رہی تھی۔ تاہم 1980ء کی دہائی میں یاسر عرفات نے اپنی جدوجہد کو تبدیل کیا اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیئے۔
1988ء میں، اس نے اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم کیا اور فلسطین کے بارے میں کئی بین الاقوامی مذاکرات میں پیش پیش رہے۔ عرفات کو فلسطینی امن اور صیہونی حکومت کے حوالے سے ان کی سرگرمیوں کی وجہ سے امن کا نوبل انعام ملا۔ بالآخر نومبر 2004ء میں پیرس کے ایک ہسپتال میں ان کا انتقال ہوگیا۔ بہت سے فلسطینیوں کا خیال تھا کہ انہیں قتل کر دیا گیا تھا اور آخرکار جب 2012ء میں ان کی لاش کو قبر سے نکالا گیا تو معلوم ہوا کہ عرفات کا جسم معمول کے سائز سے 18 گنا زیادہ تابکار مواد سے آلودہ تھا۔ 2015ء میں فتح تحریک نے اس بات پر زور دیا کہ یاسر عرفات کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔
قتل و غارت اور مزاحمت کی مثلث کی مضبوطی
جہادی تحریکوں کو کمزور کرنے، فلسطین اور خطے میں ان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش میں حماس اور لبنانی مزاحمت کے رہنماؤں کا قتل عام جاری رہا۔ تاہم تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اس طرح کے اقدامات عموماً حماس اور دیگر مزاحمتی گروپوں کی قوت ارادی کی تقویت کا باعث بنے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حماس اور مزاحمت کے رہنماؤں کے قتل سے نہ صرف اس تحریک کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ اس کی عوامی حمایت میں بھی اضافہ ہوگا اور فلسطینیوں میں مزید یکجہتی پیدا ہوگی۔ مثال کے طور پر 2004ء میں شیخ احمد یاسین کے قتل پر بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ منفی ردعمل سامنے آیا اور حماس ان جذبات کو لوگوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب رہی۔
لبنان میں حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی کے قتل کا بھی اس ملک میں الٹا اثر ہوا اور عالم اسلام کے طاقتور اور قابل رہنماء سید حسن نصراللہ کا ظہور ہوا۔ اسے سید عباس کی شہادت کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے۔ آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حماس اور مزاحمتی رہنماؤں کا قتل اسرائیل کی ان تحریکوں کو تباہ کرنے اور ان کی حکمت عملیوں پر اثر انداز ہونے کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ قتل و غارت، مزاحمت کو کمزور کرنے کے بجائے، ان کے مضبوط ہونے کا باعث بنی۔ اس وقت مغربی کنارے میں بھی فلسطینی نوجوانوں کی بھرتی نیز لبنان، یمن اور عراق میں "مزاحمت کی مثلث" میں ایک نئی طاقت و قوت و بیداری اور عرب دنیا میں فلسطینی کاز سے وابستگی ان قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اس وقت مقبوضہ علاقوں میں مزاحمت میں اضافہ ہو رہا ہے اور تمام حقائق فلسطینیوں کے عزم بالجزم میں شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ تحریک فلسطینیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے لیے پہلے سے زیادہ پرعزم نظر آرہی ہے۔