تحریر: علی احمدی
بدھ 20 نومبر 2024ء کا دن فلسطینیوں کے لیے انتہائی تلخ دن تھا جب امریکہ نے اقوام متحدہ کی تاریخ میں ایک بار پھر جنگ اور نسل کشی کی حمایت ریکارڈ کروا لی۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جنگ بندی کے لیے پیش کی گئی قرارداد ویٹو کر کے ایک بار پھر غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا راستہ بند کر دیا۔ یہ چوتھی بار ہے کہ امریکہ ایسا اقدام انجام دے رہا ہے اور غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کی بے دریغ حمایت میں مصروف ہے۔ سیکورٹی کونسل میں پیش کی گئی حالیہ قرارداد میں غزہ میں مقیم فلسطینیوں تک فوری طور پر غذائی اشیاء پہنچانا اور بنیادی انسانی امداد کی فراہمی بھی شامل تھا۔ قرارداد پیش کرنے والے ممالک نے "فلسطینیوں کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنے" کی مذمت کی۔
اسی طرح ان ممالک نے غزہ کے تمام علاقوں تک بھرپور، فوری، پرامن طریقے سے انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنانے پر زور بھی دیا تھا۔ سیکورٹی کونسل کے دس رکن ممالک، الجزائر، اکواڈور، گویان، مالٹ، موزمبیک، جنوبی کوریا، سیرالیون، سلوانیہ اور سویٹزرلینڈ نے غزہ میں جنگ بندی کی اس قرارداد کا مسودہ تیار کیا تھا۔ اس مسودے میں اہل غزہ کی بھوک اور مشکل حالات کے خطرناک نتائج پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور غزہ میں بحرانی صورتحال پر جلد از جلد قابو پانے پر تاکید کی گئی تھی لیکن امریکہ کے ویٹو نے ان تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ سیکورٹی کونسل میں اس قرارداد پر ووٹنگ ایسے وقت انجام پائی جب اقوام متحدہ نے پہلے سے اس بارے میں خبردار کر رکھا تھا کہ غزہ کے شمالی حصے میں اسرائیل فوج کے شدید محاصرے کے نتیجے میں فلسطینیوں کی بقا خطرے میں پڑ چکی ہے۔
اقوام متحدہ نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ گذشتہ 40 روز سے وہاں کسی قسم کا کوئی امدادی سامان نہیں بھیجا جا سکا ہے۔ چند ہفتے پہلے اقوام متحدہ کے قابل اعتماد ماہرین نے غزہ میں تحقیقات انجام دی تھیں اور اعلان کیا تھا کہ شمالی غزہ میں قحط شروع ہو چکی ہے۔ امریکہ کے متوقع ویٹو سے پہلے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا: "غزہ میں شدید انسانی حالات پر کونسل کی تشویش نے ہمیں فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لہذا ہم نے کئی مشاورتی اجلاس منعقد کیے ہیں اور کونسل کے رکن ممالک کے درمیان کئی ہفتے تک بات چیت جاری رہی ہے جس کے بعد حالیہ قرارداد کا مسودہ تیار کیا گیا ہے۔ اس قرارداد کا اصل مقصد جنگ روکنا اور عوام کو درپیش بھوک اور غیر انسانی حالات کا خاتمہ ہے۔"
الجزائر کے اقوام متحدہ میں سفیر عمار بنجاما نے امریکی ویٹو کے بعد کہا: "آج سیکورٹی کونسل، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے لیے انتہائی غم انگیز دن ہے کیونکہ اس قرارداد کا مسودہ تیار کرنے والے کونسل کے چودہ رکن ممالک نے عالمی برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا لیکن امریکہ کے ویٹو کے باعث یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکا۔" دنیا بھر کے صحافیوں اور نیوز ایجنسیز کے نمائندوں نے اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب سفیر رابرٹ وڈ سے کہا کہ وہ امریکہ کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کیے جانے کی وجوہات بیان کریں۔ اس نے ہمیشہ کی طرح کہا: "ہم نے مذاکرات کے دوران واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ ایسی کسی بھی غیر مشروط جنگ بندی کی حمایت نہیں کریں گے جس کا نتیجہ یرغمالیوں کی آزادی کی صورت میں نہ نکلتا ہو۔ بنیادی شرط یہ ہے وہ آزاد ہو جائیں۔"
امریکی نائب سفیر نے حماس کے خلاف الزامات دہراتے ہوئے دعوی کیا کہ جنگ بندی کے حق میں ووٹ دینے سے حماس کو تنظیم نو کا خطرناک پیغام پہنچتا ہے اور وہ سمجھے گا کہ اسے مذاکرات کی ٹیبل پر واپس لوٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی نائب سفیر کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایک بار پھر حماس کے خلاف بے بنیاد الزامات لگا کر ایک زیادہ اہم ہدف حاصل کرنے کے درپے ہے۔ یہ ہدف دراصل "غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء سے گریز کرنا" ہے اور امریکہ درحقیقت غزہ پر اسرائیل کے ہمیشگی فوجی قبضے کی مقدمہ چینی کر رہا ہے۔ یوں، بائیڈن حکومت حتی اپنی مدت کے آخری ہفتوں میں بھی فلسطین پر غاصبانہ قبضے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت میں مصروف ہے۔ دوسری طرف غاصب صیہونی رژیم بھی اسی امریکی حمایت کے سائے تلے نہتے شہریوں کے خلاف ظلم و ستم کا بازار گرم رکھے ہوئے ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی اپنے ایک کالم میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل نے گذشتہ برس بھی کئی قراردادیں پیش کر کے غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں انجام دی تھیں۔ امریکہ نے ان میں سے تین قراردادوں کو ویٹو کر دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے اور ابھی جنگ ختم ہونے کا وقت نہیں آیا۔ اس وقت بھی غزہ میں انسانی بحران روز بروز زیادہ شدید ہوتا جا رہا ہے اور جنگ ختم ہونے کی کوئی علامت دکھائی نہیں دے رہی۔" نیویارک ٹائمز نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یرغمالیوں کی آزادی ایسا ایشو ہے جس پر جنگ بندی کے بعد بھی بات چیت کی جا سکتی ہے۔ شدید سردی کے موسم میں امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کر کے اہل غزہ کو درپیش مشکلات اور بحران کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ان کے پاس نہ پینے کا پانی ہے، نہ بنیادی سہولیات ہیں اور نہ ہی سردی سے بچنے کا کوئی راستہ ہے۔ اہل غزہ قحط اور موت سے روبرو ہیں۔