تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
دنیا پر دباو برقرار رکھنے اور مغربی دبدبے کے لیے مغرب نے چند بڑے ادارے قائم کیے ہیں۔ ان میں ایک بڑا ادارہ آئی سی سی یا انٹرنیشنل کریمنل کورٹ ہے۔ اس میں عام طور پر مغرب کے خلاف چلنے والے ممالک کو سزا دی جاتی ہے۔ اس کے پیمانے بڑے سوچ سمجھ کر سیٹ کیے گئے ہیں۔ اس میں ہمیشہ مغرب کے مخالف ہی اس کی زد میں آتے ہیں۔ مغربی ممالک کو وہ چیلنجز درپیش نہیں ہیں، جو دیگر ممالک کو ہیں۔ اس لیے بار بار دیگر ممالک کی گردن اس کے ذریعے سے دبائی جاتی ہے۔ یوکرین جنگ پر پیوٹن کے ورانٹ گرفتاری اسی کورٹ سے جاری کرائے گئے۔ ایک سو چوبیس ممالک نے آئی سی سی کو تسلیم کیا ہوا ہے۔ یہ ممالک پابند ہیں کہ آئی سی سی کے فیصلوں پر عمل درآمد کرائیں۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مغربی ممالک کے چہیتے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ آیا اور اس پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ورنٹ گرفتاری جاری ہوگئے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ "لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔"
اب مغربی ممالک کے اپنے ضابطوں کے مطابق نیتن یاہو ان کے ہاں آتا ہے تو اسے گرفتار کرکے ہیگ میں پیش کرنا ہوگا اور پھر اس سے تحقیق ہوگی۔ اس پر دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ردعمل آیا، یہ ردعمل ہی بتاتا ہے کہ دنیا میں کون ظالم کے ساتھ کھڑا ہے اور کون مظلوم کا حمایتی ہے۔ رہبر معظم نے فرمایا کہ اسرائیلی وزیراعظم کے صرف اریسٹ ورانٹ جاری نہیں ہونے چاہیں بلکہ اسے سزائے موت ہونی چاہیئے۔ یورپی یونین، کینڈا، برطانیہ، آسڑیا، بلجیئم اور آسڑیلیا "مرتے کیا نہ کرتے" کے مصداق ٹھہرے اور کہا کہ ہم کریمنل کورٹ کے احکامات پر عمل کریں گے۔ ہنگری کے صدر کے ترجمان نے کہا کہ اس طرح کا فیصلہ ناقابل قبول ہے۔ ہنگری کے وزیراعظم گویا ہوئے کہ وہ اسرائیلی وزیراعظم کو دورہ ہنگری کی دعوت دیں گے اور اس فیصلے کی خلاف ورزی کریں گے۔
امریکی ردعمل نیتن یاہو کی حمایت سے زیادہ نیتن یاہو کی خدمت کا لگ رہا ہے۔ انہوں نے خود بین الاقوامی جنگی عدالت کو پابندیاں لگانے کی دھمکی دی ہے۔ ٹرمپ کی متوقع ٹیم نے تو اسے یہود مخالف فیصلہ قرار دے دیا ہے۔ ریپلکین سینیٹر ٹام کوٹن نے تو ہیگ پر حملے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ اس نے یہ بات ایسے ہی نہیں کہہ دی، اس کے پیچھے ایک امریکی سپرمیسی کا قانون کھڑا ہے۔ یہ دو ہزار دو میں پاس ہوا، جس کے مطابق اگر ہیگ عدالت امریکی سروس مین کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو امریکی افواج ہیگ بھیجی جا سکتی ہیں۔ قارئیں آگاہ ہیں کہ اس وقت دنیا میں نیتن یاہو سے بڑا امریکی ملازم کون ہے؟!!! یہ خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کر رہا ہے، اسی لیے اسے ہر طرح کا استثنیٰ دلوانا امریکی ذمہ داری ہے۔ امریکی سینیٹر لینڈسی گراہم نے کہا تھا کہ اگر آج اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو کل کو ہمارا نمبر بھی آئے گا۔ گراہم نے درست کہا، کیونکہ جو جنگی جرائم دنیا کے مختلف ممالک میں امریکہ نے کیے ہیں، وہ ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔
امریکی سینیٹر لنزی گراہم، جو ٹرمپ کے قریبی ساتھی ہیں، انہوں نے برطانوی وزیراعظم کئر اسٹارمر کو دھمکی دی ہے کہ اگر ICC کے وارنٹ گرفتاری پر عمل کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو گرفتار کیا گیا تو برطانوی معیشت تباہ کر دی جائے گی۔ یہ دھمکی صرف برطانیہ ہی کو نہیں دی گئی ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ جو بھی ملک آئی سی سی کے حکم کی پیروی کریں گے، انہیں سنگین اقتصادی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ویسے تو اسرائیل کی حزب اختلاف ہی اس انتظار میں ہے کہ جیسے ہی جنگ ختم ہو، نیتن یاہو کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ جنگ بڑھانے اور کچھ بہت بڑا اور نیا کرنے کے چکر میں نیتن یاہو خطے کو تباہ کر رہا ہے۔ اب خطرہ اس بات کا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ عالمی کریمنل کورٹ کو اس فیصلہ کرنے کی جسارت پر کیا سزا دیتے ہیں؟ لگ یہ رہا ہے کہ کہیں اس عدالتی نظام کو ملیا میٹ نہ کر دیا جائے کہ انہیں تو پسماندہ اور خود سر ممالک کو سزا دینے کا مینڈیٹ دیا گیا تھا، انہوں نے اس سے تجاوز کرنے کی جرات کیسے کی ہے۔؟
یہ پورا نظام مغرب اور مغرب کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتا ہے، بہت سے لوگوں کا درست خیال یہ ہے کہ انسانی حقوق اور دیگر مغربی نعرے دنیا میں اپنا اعتبار کھو چکے ہیں۔ غزہ میں جو کچھ کیمرے کی آنکھ کے سامنے ہوا، اس نے مغربی تہذیب کی حقیقت کو دنیا کے سامنے من و عن پیش کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں یہ وارنٹ فقط دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں، ہونا ہوانا کچھ نہیں ہے، بس چند نعرے لگانے والوں کو اس بین الاقوامی تھیٹر میں چند مزید دن تالیاں بجانے کا بہانہ مل جائے گا۔ جب اقوام متحدہ کی افواج پر حملہ ہوتا ہے اور وہ سوائے پریس ریلیزوں کے کچھ نہ کر پاتی۔ اسی طرح جب اس کی بیکریوں اور اس کے سکولوں پر حملے ہوتے ہیں اور یہ کچھ نہیں کر پاتی۔ اقوم متحدہ کے جنرل سیکرٹری دہائی دے رہے کہ اسرائیل کو نسل کشی روکا جائے، اسرائیل شمالی غزہ میں فلسطینیوں کو بے دخل کر رہا، مگر کچھ نہیں ہو رہا تو اب کریمنل کورٹ کیا کر لے گی۔؟ اس فیصلے نے ایک بات باور کرا دی ہے کہ نیتن یاہو کے مظالم اتنے واضح ہیں کہ کوئی بھی ان کا انکار نہیں کرسکتا۔