تحریر: اتوسا دیناریان
فلسطین میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت آئی سی سی کے فیصلے پر مغربی ممالک کا ممکنہ عمل درآمد عالمی اداروں کے فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے مغرب کے عزم کو جانچنے کا ایک بہترین موقع ہے۔ "فرانسیکا البانیزی" نے مزید کہا ہے کہ صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور اس حکومت کے سابق وزیر جنگ یوو گیلنٹ کی گرفتاری کا حکم دراصل انصاف اور مجرموں کو سزا دینے کے ہمارے مطالبات کا نفاذ ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلے کے حوالے سے مغربی ممالک کے درمیان تقسیم کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ عالمی قوانین پر عملدرآمد کے نعرے لگانے والے خود اس فیصلے پر کیا کرتے ہیں۔
البانیزی کا یہ انتباہ اس وقت سامنے آیا، جب ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت نے فلسطینیوں کے خلاف کئی مہینوں کے اسرائیلی جرائم کے بعد، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف مظالم اور فلسطینیوں کو بھوک کے ہتھیار سے مارنے کے الزامات کے تحت بینجمن نیتن یاہو اور یوو گیلنٹ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے، جب ہیگ کی عدالت نے دو سینیئر اسرائیلی حکام کی گرفتاری کا حکم دیا ہے۔ غزہ جنگ کے کئی مہینوں بعد بین الاقوامی فوجداری عدالت نے فیصلہ جاری کیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے عالم میں سامنے آیا ہے کہ غزہ کی وزارت صحت نے اپنی تازہ ترین معلومات میں اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک غزہ میں شہید ہونے والوں کی تعداد چوالیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ اسی طرح زخمیوں کی تعداد سوا لاکھ سے زائد ہوچکی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے قتل و غارت اور جرائم کا سلسلہ بدستور جاری ہے، جس کی وجہ سے غزہ کو امداد فراہم کرنے کے راستے ابھی تک بند ہیں اور UNRWA کی امداد بھی منقطع ہے۔ ایسے حالات میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلے کو مغربی ممالک کی جانب سے مختلف اور مخالف ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس فیصلے کے بعد امریکہ نے فوری طور پر اس فیصلے کے خلاف مؤقف اختیار کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت کی کارروائی کو ظالمانہ قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر اسرائیل کی حمایت پر زور دیا۔ ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوربان، جن کے ملک کے پاس یورپی یونین کی گردشی صدارت ہے، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ہمارے ملک کے وزیراعظم نے اپنے اسرائیلی ہم منصب نیتن یاہو کو بڈاپسٹ کے دورے کی دعوت دی ہے اور ہم بین الاقوامی فوجداری عدالت کے حکم کی تعمیل نہیں کرتے ہیں۔
بعض یورپی ممالک کے مواقف نے انسانی حقوق کے اداروں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، اسی وجہ سے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے اس بارے میں خبردار کر دیا ہے۔ فرانسسکا البانی نے کہا ہے کہ امریکہ، ہنگری اور دیگر ممالک جو غزہ کی موجودہ صورتحال کے باوجود اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں، بین الاقوامی فوجداری عدالت کی تذلیل کر رہے ہیں جبکہ نیتن یاہو اور گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنا عالمی تاریخ کا ایک اہم لمحہ ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو غزہ میں جاری مظالم کے باوجود مغرب کی جانب سے اسرائیل کی مسلسل حمایت پر تشویش ہے۔ اسرائیل جس نے گذشتہ برسوں میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی قانون یا وعدے کی پاسداری نہیں کرتا، اب اس حکم کے خلاف بھی اپنا موقف اختیار کرچکا ہے اور اس کے اتحادی بھی اس کی حمایت کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔
حالانکہ موجودہ حالات کے مطابق اس صورتحال کا تسلسل غزہ میں انسانی تباہی کو مکمل کردے گا۔ اس لیے اقوام متحدہ کے حکام نے اس سزا پر عمل درآمد کے عزم کو مغربی ممالک کے لیے اپنی قانونی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں پر عمل درآمد کے حوالے سے ایک امتحان قرار دیا ہے اور اس پر عمل درآمد نہ کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) کی نائب سربراہ "Natalie Buckley" نے بھی بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے سینیئر اسرائیلی سیاست دانوں کے وارنٹ گرفتاری کے اجراء کو "لاکھوں لوگوں کو پہنچنے والے مصائب کا محاسبہ قرار دیا اور اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ بنیادی طور پر غزہ کی پوری آبادی کو آنے والے قحط کے درمیان، انہیں مدد کی اشد ضرورت ہے کہا ہے کہ اسرائیلی حکام کو بین الاقوامی قوانین کی تمام سنگین خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہ ہونا چاہیئے۔
بہرحال دو اسرائیلی اہلکاروں کے خلاف فوجداری عدالت کا موجودہ فیصلہ اسی احتساب کا آغاز ہے۔ کچھ مغربی ممالک اس سزا پر عمل درآمد کرنے یا اسرائیل کے جرائم کو روکنے کی کوششوں کے حوالے سے ذمہ داری محسوس نہیں کر رہے ہیں، جیسا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلے کے دو دن کے اندر اندر سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی تجویز پیش کی گئی، لیکن سلامتی کونسل میں امریکہ نے اسے ویٹو کر دیا۔ دوسری جانب جرمنی سمیت بعض یورپی ممالک نے صیہونی حکومت کو ہتھیار بھیجنے پر زور دیا ہے۔