تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.com
عشقِ الہیٰ، اسلامی تصور کائنات کا محور ہے۔ عقل ایک آلہ ہے۔ عقل عالَمِ ملک کو تو تسخیر کرسکتی ہے، لیکن عالم ملکوت کی تسخیر کے لئے عشق درکار ہے۔ کمالِ مطلق خداوند عالم کی ذات ہے، جس سے عشق کے ذریعے ہی متصل ہوا جا سکتا ہے۔ اسی اتصال کا نام شہادت ہے۔ عشق ایسے فنا کا نام ہے، جس میں ابدی بقاء ہو۔ اس ابدی بقاء کا نام شہادت ہے، جو شہداء کو ورثے میں ملتی ہے۔ جس کو خدا نے "
وَلا تَحسَبَنَّ" کی مہر سے ہمیشگی کی سند دی ہے۔ ایسا عشق شہداء کی زندگی میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ شب کی تاریکیوں میں، برف سے لپٹے پہاڑوں میں، تپتے صحراؤں میں، جھلستی ہوئی دھوپ میں، سرد ہواؤں میں، تنگ و تاریک غاروں میں، ظلم و بربریت سے بھرے معاشروں میں اور نفسا نفسی کے پرآشوب دور میں معشوقِ حقیقی کے ذکر میں لب ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔ نعرۂ تکبیر و نعرہ حیدری ان کا ورد زبان ہے۔ اخلاص و ایمان، ایثار و فدا کاری، عشق و محبت، تقویٰ و پرہیز گاری، شجاعت و دلیری، عزت و شرافت، معرفت و عرفان، عقلانیت و عدالت، غیرت و حمیت، قناعت و رضا مندی، صبر و تحمل، بصیرت و دور اندیشی، خود داری و دین داری ان کی زندگی کا خلاصہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شہداء اپنے معشوق کے عشق میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کو عینِ حیات سمجھتے ہیں۔ عقلِ انسانی یہاں آکر دنگ رہ جاتی ہے، کیونکہ عقل میں لامحدود چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ وہ محدود ہے۔ سید علی خامنہ ای اپنی "قرآن میں اسلامی طرز تفکر کے خد و خال" نامی کتاب میں فرماتے ہیں کہ عقل ایک حد تک ہی انسان کی رہنمائی کرسکتی ہے، کیونکہ وہ محدود ہے، وحی آ کر انسان کو اشیاء کی باطنی حقیقت سے آشنا کرتی ہے۔" وحی کا تعلق عالَمِ مُلک سے نہیں بلکہ عالم ملکوت سے ہے۔ عشق، وحی کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔ عشق ہی انسان کو پرواز کرنا سکھاتا ہے۔ عشق ہی کے ذریعے انسان اس آفاقی دنیا کے اسرار و رموز کو درک کرسکتا ہے۔ اس کائنات کے اسرار و رموز کو پہچاننے کے بعد کون اپنے معشوق سے ملنا نہیں چاہے گا؟ شہداء نے اس حقیقت کو پا لیا، جس کی بنا پر خود کو فنا فی الله کیا۔
خدا بھی شہداء کو ان کے عشق کا صلہ کبھی "
بَلۡ اَحۡیَآءٌ" کی شکل میں دے رہا ہے تو کبھی "
عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ" سے یاد کر رہا ہے۔ کبھی "
وَ لَا تَحۡسَبَنَّ" سے ابدی حیات کی سند عطاء کر رہا ہے۔ کبھی "
وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ" کہہ کر بتا رہا ہے کہ ہمارے اندر ابھی وہ شعور نہیں آیا ہے کہ فلسفہ شہادت کو سمجھ سکیں۔ اس مرادِ گوہر کو سمجھنے کے لئے شہید کی طرح جینا پڑتا ہے۔ ورنہ جو اپنے نفس کے بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑاتا رہتا ہے، وہ معراجِ شہادت کو نہیں سمجھ سکتا، نہ ہی اس منزل پر پہنچ سکتا ہے۔ اس کے لیے پہلی شرط اپنی مادی زندگی میں ہی شہداء کی طرح جینے کی ضرورت ہے۔ شہید سردارِ دلہا کے بقول "شرطِ شہید شدن شہید ماندن است۔"
ہم شہداء کی طرح زندگی اسی وقت جی سکتے ہیں، جب ہمیں ان کی زندگی کی راہ و روش کا علم ہو۔ ان کے مشن و ہدف کا پتہ ہو۔ اس کو معلوم کرنے کے لیے ان کی یاد کو تازہ رکھنا ضروری ہے۔ خدا نے خود فرمایا ہے کہ یہ لوگ مردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں، رزق پا رہے ہیں لیکن ہمیں اس کا شعور و ادراک نہیں ہے۔ ان کی یاد کو تازہ رکھنا مردہ پرستی نہیں بلکہ سنت الہیٰ کا احیاء ہے۔ علماء اور فقہاء بھی اس سنت الہیٰ پر مسلسل کاربند رہے ہیں۔ ساتھ ہی اپنی زندگی میں یہ فرماتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ "شہید کی یاد کو زندہ رکھنا شہادت سے کم نہیں ہے۔" مزید فرماتے ہیں کہ "شہداء کی یاد کو زندہ رکھنا خود ایک جہاد ہے۔" اسلام کی آبیاری شہداء کے خون سے ہی ہوئی ہے۔ جیسا کہ شہید آوینی فرماتے ہیں۔ "اسلام کی جڑیں فقہ و اصول میں ہیں جبکہ اس کی آبیاری شہداء کے خون میں ہے۔"
شہداء اور شہادت، خواب غفلت میں پڑی قوموں کو جگاتے ہیں۔ زندہ و جاوید قومیں وہی ہیں، جو اپنے شہداء کی یاد کو زندہ رکھتی ہیں اور وہی قومیں دنیا کو تسخیر کرتی ہیں۔ باشعور قومیں کبھی اپنے شہداء کو نہیں بھولتی ہیں اور یہی قومیں تاریخ میں ایک نئی تاریخ رقم کرواتی ہیں۔ وہی تاریخ انسان کو اس عظیم انسان کا ہدف، راستہ اور مشن کی یاد دلاتی ہیں۔ شہداء کے رقم کی ہوئی تاریخ کی مثال خون کی لکیر کی مانند ہے، جو حق و باطل کے درمیان کھینچی گئی ہے، جو کبھی مٹ نہیں سکتی، کیونکہ اس پر خالق لم یزل ولا یزال نے ابدی مہر تثبیت کی ہے۔ تثبیت کے ساتھ یہ حکم بھی دیا ہے کہ ان کو مردہ گمان مت کرو، ان کو مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں اور خدا کے حضور رزق پا رہے ہیں۔ راستہ، فکر، رہنمائی زندوں سے ہی لیا جاتا ہے۔
اس کا ایک طریقہ ان شہداء کے آثار ہیں۔ جب تک ہم ان کے آثار کو دیکھتے، پڑھتے اور سنتے نہیں، اس وقت تک ان کے افکار کو ہم اپنے اندر زندہ نہیں کرسکتے۔ ان کے افکار کو زندہ رکھنا اس لئے ضروری ہے کہ نئی نسل کو عشق لامتناہی اور کمال مطلق سے جوڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستانی سرزمین پر بالا تمام خصوصیات کا حال شخصیت، جو عشق لامتناہی اور حقیقی معنیٰ میں کمال مطلق سے جڑ گئی اور اس کی فکر ہر جوان کو عشق لامتناہی اور کمال مطلق کی طرف دعوت دیتی ہے، وہ عارِف کامل جس کا محور خداوند متعال کی ذات ہے اور وہ عظیم شخصیت جس نے اجتماعیت کو انفرادیت پر فوقیت دی، اسلام ناب کی احیاء اور اتحاد امت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
وہ عظیم رہنماء کوئی اور نہیں بلکہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی ذات ہیں۔ جن کے افکار کو زندہ رکھنے کا حکم اس وقت کے ولی فقیہ نے دیا ہے۔ جس پر باقاعدہ قوم کے بزرگان کی طرف سے کوئی کام نہیں ہوا۔ جس پر نئی نسل شرمندہ ہے، لیکن ابھی بھی موقع ہے کہ شہید کے آثار پر کام کرکے نئی نسل کی تربیت کرسکتے ہیں۔ اس کام کا نتیجہ بھی واضح ہے کہ ایک صالح معاشرے کے قیام کی صورت میں نکلے گا۔ آپ کی سیرت ہر مکتب فکر کے لوگوں کے لیے ایک عملی نمونہ ہے۔ شہید کے افکار کو زندہ رکھنے کی ذمہ داری علماء، اہل قلم، اہل سخن اور اسٹوڈنٹس تنظیموں کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔
نئی نسل کو اقبال کا شاہین بنانے کے لیے شہید کے آثار پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کام کی نوعیت جس طرح کی ہو، اہم کام کا آغاز ہے۔ آپ کے آثار پر علمی نشست کے انعقاد، علمی مقالے کی تدوین، مختلف موضوعات پر سیمینارز، کانفرنسز، ڈاکومینٹری، مطالعاتی دورہ جات، گروپ ڈبیٹ، کوئز پروگرام، ریسرچ سینٹر، فلاحی اداروں کا قیام۔۔۔۔ ان کے ذریعے ان کے افکار کو نئی نسل تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے شہید کے آثار سے آشنائی ضروری ہے۔ ہم قارئین خصوصاً جوان قارئین کی خدمت میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کے کچھ آثار و کتب کا مختصر تعارف پیش کر رہے ہیں۔
1۔ *"سفیر نور، مثالی لوگ شہید حسینی، قتیل سحر، گوہر نایاب"* یہ کتب شہید قائد کے حالات زندگی پر مشتمل ہیں۔
2۔ *"گفتار صدق"* یہ کتاب شہید قائد کے قرآنی دروس پر مشتمل ہے۔
3۔ *"پیام نور"* یہ کتاب شہید قائد کے تربیتی اور اخلاقی دروس پر مشتمل ہے۔
4۔ *"سخنِ عشق"* یہ کتاب شہید قائد کے عزاداری اور مجالس میں کیے گئے خطابات پر مشتمل ہے۔
5۔ *"آداب کارواں"* یہ کتاب اجتماعی و تنظیمی امور پر شہید قائد کے کیے گئے خطبات پر مشتمل ہے۔
6۔ *"میثاق خون"* یہ کتاب شہید قائد کے اوائل قیادت میں مدارس سے متعلق کی گئیں گفتگوؤں کا مجموعہ ہے۔
7۔ *"اسلوب سیاست، ہمارا راستہ*" یہ کتب قائد ِشہید کی سیاسی جدوجہد، روش اور سیاسی منشور پر مشتمل ہے۔
8۔ *"وصال حق"* یہ کتاب شہید قائد کی مناجات اور بالخصوص دعائے کمیل میں ہونے والی تقاریر کا مجموعہ ہے۔
9۔ *"نقیب وحدت"* یہ کتاب قائد شہید کی پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے لیے کی گئی کوششوں اور خطابات کا مجموعہ ہے۔