تحریر: شہباز علی خان
ماہ اگست ویسے بھی پاکستان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی پس منظر میں دو مہینے ایسے ہیں جنہیں بحیثیت قوم ہم کبھی نہیں فراموش نہیں کرسکتے۔ ایک اگست جب اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشہ پر نقش ہوا اور دوسرا ماہ دسمبر جب پاکستان دولخت ہوا اور مشرقی پاکستان دنیا کے نقشہ پر بنگلہ دیش کے نام سے ابھرا۔ آج دنیا کے تمام اخبارات کی شہ سرخیاں عوامی احتجاج کی بنا پر وزیراعظم حسینہ واجد کے استعفے اور بھارت روانگی سے متعلق ہیں۔
بعض صحافتی ذرائع کے مطابق اپنے اس فرار سے قبل انہوں نے ایک عوامی تقریر ریکارڈ کرانے کی کوشش کی مگر حالات نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ گزشتہ روز جب فوجی سپہ سالار کا یہ پیغام میڈیا کی زینت بنا کہ افواج عوام کے اعتماد کی علامت ہیں اور وہ عوام کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے۔ یہ وہ تاریخی سبق تھا جسے خوش قسمتی سے ایک طاقتور ادارے نے تو یاد رکھا مگر یہ سبق طاقت کے نشے میں چور حکمران نے چند اداروں کی مدد سے عوام کو کچلنا شروع کردیا مگر پھر اسے اپنی جان بچانے کے لیے ملک چھوڑ کر ہی بھاگنا پڑا۔
اس وقت بنگلہ دیش کی سڑکوں پر عوام ایک بپھرے ہوئے سمندر کی طرح ہر اس سامراج کا وجود اور نشان مٹانے میں لگی ہوگی جس نے بے گناہ شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کی اور لاشیں انہی سڑکوں پر بچھائیں۔ یہ ہوتا ہے انقلاب جس کا سامنا بنگلہ دیش کی حکومت اور عوام نے کیا۔ کچھ دن پہلے تک کسی ذہن اور دور اندیش صحافی نے آج کے دن ہونے والے واقعہ کا تصور تک نہ کیا ہوگا کیونکہ سب کے دل و دماغ میں یہی تھا کہ ادارے تو سرکار کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں اور تعلیمی اداروں کے لونڈے لپاڑوں نے کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پولیس کے ڈنڈے ہی کافی ہوں گے انہیں بھگانے کےلیے۔
مگر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور سیاست میں سمجھداری یا عقلمندی یہی تصور ہوتی ہے کہ ملکی سیاست کے اتار چڑھاؤ سے سیکھا جائے۔ نہ کہ ریاست عوام سے خود کو الگ کرکے محض چند اداروں کو ہی ساری طاقت کا سرچشمہ سمجھ لے اور عوام کے فیصلوں کو پس پشت ڈال کر تشدد کا راستہ اختیار کرلے۔ چاہے وہ گزرے ہوئے کل میں مشرقی پاکستان تھا یا مغربی پاکستان، اگر ان ممالک کی سیاست کا تقابلی جائزہ آج لیا جائے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ نے جو بھی سبق پڑھائے ان سے سیکھا کچھ زیادہ نہیں گیا۔ اس خطے میں جمہوریت کمزور سے کمزور ہوتی چلی گئی اور طاقت کا محور چند خاندانوں تک ہی محدود رہ گیا یا اسے جان بوجھ کر رکھا گیا اور انہیں ہی ملکی مفاد و سلامتی کا ضامن سمجھا گیا۔
حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب منجھے ہوئے سیاستدان تھے اور بھارت سرکار کے قریب بھی۔ بنگلہ دیش کا طاقتور ترین حکمران بننا اور پھر طاقتور کا انجام جن کے ہاتھوں سے ہوا وہ کسی دشمن سرزمین سے نہیں اتارے گئے تھے۔ بدقسمتی سے انہی حالات کا سامنا اس وزیراعظم کو بھی کرنا پڑا۔ یہ تو خوش قسمتی ہے کہ اس وزیراعظم کو اتنا وقت دیا گیا تاکہ وہ جان بچا کر اپنے ہی ملک سے جاسکے۔
کچھ اطلاعات کے مطابق اس وقت بنگلہ دیش کے وزیراعظم ہاؤس میں لوٹ مار کی جارہی ہے۔ اس وقت مجموعی طور پر اس خطے کے امن و امان کی صورت حال تشویشناک حد تک غیر مستحکم اور مختلف خطرات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ مگر آج بھی ریاست جب مسائل کا سامنا کرتی ہے تو سب سے پہلے وہ طاقت کا بھرپور استعمال کرتی ہے۔ ہر آنے والا حکمران اپنے سے پچھلے والے کے عروج و زوال سے کچھ نہیں سیکھتا اور وہی غلطیاں دہراتا ہے جو آخر اسے بھے لے ڈوبتی ہیں۔
بدقسمتی سے جن ممالک میں طاقت کے محور ایک مخصوص نظریہ حکومت لاگو کردیں کہ ریاست اور شہری الگ الگ وجود ہیں اور ان کے مفادات ایک دوسرے کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں، وہاں سیاسی میدان کسی وقت بھی میدان جنگ میں بدل سکتا ہے اور ان عارضی طاقتور حکمرانوں کو یہ ذہنی بیماری لاحق ہوتی ہے کہ ان سے زیادہ اس سرزمین کا عاشق کوئی اور نہیں اور وہی بہترین دماغ ہیں اور اس طرح ایک ایسا غیر متوازن سا پلڑا بن جاتا ہے جس کے ایک طرف طاقتور حکمران اور دوسری طرف عوام ہوتے ہیں۔
ناہمواری، غیر متوازی وسائل کی تقسیم اور سیاسی عدم استحکام اس وقت مزید خراب ہو جاتا ہے جب اہل اقتدار چند اداروں کی مدد سے طاقت کا غلط استعمال سرعام شروع کردیں۔ کیونکہ قدرت بھی ایک وقت تک ہی ڈھیل دیتی ہے پھر اس کے بعد وہی کچھ ہوتا ہے جو آج بنگلہ دیش کی سرزمین پر ہوا۔ اب دیکھنا ہے یہ جب یہ دھول بیٹھے گی تو آنے والا حکمران کیا لائحہ عمل اختیار کرتا ہے۔ ان چند دنوں کے حالات و واقعات میں ہمارے لیے سبق رکھتے ہیں۔