رپورٹ: جاوید عباس رضوی
بنگلور شہر میں جماعت اسلامی ہند ریاست کرناٹک کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں بھارت و ریاست کرناٹک کے موجودہ حالات کے پس منظر میں چند اہم مسائل و معاملات پر توجہ دلائی گئی اور چند ایک مطالبات سامنے رکھے گئے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی ہند ریاست کرناٹک کے صدر ڈاکٹر سعد بلگامی نے بین الاقوامی و ملکی سطح پہ رونما ہو رہے سیاسی و سماجی صورتحال پر گہری روشنی ڈالی اور پیغام دیا کہ موجودہ پیچیدہ صورتحال میں تبدیلی لانے کے تئیں عوام اٹھ کھڑی ہو، حق و انصاف کے لئے آواز بلند کرے، جدوجہد کرے۔ انہوں نے کہا کہ عوام ظالموں کی مذمت کرے اور ہر اعتبار سے مظلوموں کی حمایت کرے۔ ڈاکٹر سعد بلگامی نے بھارت و ریاست کرناٹک میں مختلف انداز میں پیش آرہے مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت اور فلسطینیوں کی نسل کشی:
جماعت اسلامی ہند کے ریاست صدر ڈاکٹر سعد بلگامی نے کہا کہ اسرائیل کی بربریت نے اس وقت ایک نئی پست سطح اختیار کی جب غزہ کے سابق وزیراعظم اور حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں سفارتی دورے کے دوران شہید کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی مذمت کے باوجود بے بس فلسطینیوں کے خلاف جاری تشدد اور نسل کشی بین الاقوامی نظام اور قانون کی ناکامی کی واضح مثال ہے۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ ہم عالمی برادری سے ضمیر کی آواز سننے، اسرائیل کی خوفناک بربریت کو روکنے اور فلسطین کے بہادر لوگوں کی آزادی کی جد و جہد میں ہر ممکن حمایت کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سعد بلگامی نے کہا ’’ہم اسماعیل ہنیہ اور فلسطین کے بے شمار شہیدوں کے لئے دعاگو ہیں، اس قسم کی شہادتیں انصاف کے لئے لڑنے والے بہادر لوگوں کے عزم کو مزید مضبوط کریں گی‘‘۔
ریاست کرناٹک میں امن و امان کی صورتحال یا انتخابی نتائج کے بعد کا منظرنامہ:
جمعیت علماء ہند ریاست کرناٹک کی پریس کانفرنس میں مزید کہا گیا کہ اگرچہ پارلیمانی انتخابی نتائج، نفرت اور تقسیم کے ایجنڈے کو مسترد کرنے کی واضح نشاندہی کرتے ہیں، لیکن فاشسٹ اور فرقہ پرست قوتیں اپنے ایجنڈے پر قائم نظر آتی ہیں، اس لئے موب لنچنگ، بلڈوزر کلچر، مساجد پر حملے اور کھلے عام متعصب قوانین اور فیصلوں کا سلسلہ یہاں جاری ہے۔ پریس کانفرنس میں مزید کہا گیا کہ فاشزم ایک گہری بیماری ہے اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہمیں ملک کے سیکولر، سچائی اور انصاف پسند انسانیت پسند قوتوں کی طرف سے ان کے شیطانی منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے ایک مستقل، ملک گیر اور کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی ہند کرناٹک کی طرف سے تعلیمی اصلاحات کیلئے مطالبات:
جمعیت علماء ہند کی پریس کانفرنس میں مزید کہا گیا کہ ریاست میں اقلیتی برادری کے طلباء کو دی جانے والی قبل از میٹرک اور بعد از میٹرک وظائف مناسب طور پر تقسیم نہیں ہو رہے ہیں۔ کچھ طلباء کو وظائف ملتے ہیں، لیکن بہت سے طلباء کو معمولی غلطیوں کی وجہ سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ تعلیمی قرض سہولت، جو پہلے تمام قسم کے پیشہ ورانہ کورسز کے لئے دستیاب تھی، اب اسے صرف میڈیکل اور انجینئرنگ تک محدود کر دیا گیا ہے اور صرف انہیں طلباء کو دی جا رہی ہے جنہوں نے ’سی ای ٹی‘ کے ذریعے نشستیں حاصل کی ہیں۔ ڈاکٹر سعد بلگامی نے کہا کہ آر ٹی ای (حق تعلیم) ایکٹ 2012 سے ریاست میں نافذ ہے، تقریباً 12 سال گزرنے کے بعد بھی اس قانون کا صرف 23 فیصد ہی نافذ ہوا ہے، اسے زیادہ موثر طریقے سے نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
جمعیت علماء ہند کی پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ حکومتی پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں اساتذہ کی نمایاں کمی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق ریاست میں 50,000 سے زائد اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں۔ معیاری تعلیم کے لئے حکومت کو فوری طور پر اس مسئلے کو حل کرنا چاہیئے اور مرحلہ وار اساتذہ کی بھرتی کرنی چاہیئے۔ مزید برآں یونیورسٹی کے خالی اساتذہ کی اسامیاں جتنی جلدی ممکن ہو بھرتی کی جانی چاہئیں۔ ریاست کے اسکولوں/کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ذات پات اور مذہب پر مبنی امتیاز اور ہراسانی کو روکا جانا چاہیئے اور اسکول و کالج کیمپس میں ایک جامع تعلیمی ماحول کو یقینی بنایا جانا چاہیئے۔ ڈاکٹر سعد بلگامی نے کہا کہ ہم اسمارٹ انٹیگریٹڈ کوآرڈینیشن سروسز ونگ بنانے کی تجویز دیتے ہیں۔ یہ ونگ جدید ٹیکنالوجیز جیسے مصنوعی ذہانت اور 5G قابل نگرانی ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گا تاکہ مختلف ایجنسیوں اور محکموں کے ذریعہ ترقیاتی کام بغیر اوورلیپ اور رکاوٹ کے کیے جائیں، اور شہریوں کو بے روک ٹوک خدمات فراہم کی جائیں۔
ریاست کرناٹک میں اقلیت کے ساتھ امتیازی سلوک:
پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ ریاست کرناٹک میں دلتوں کے خلاف مظالم بڑھ گئے ہیں، یہ واقعات ذات پات پر مبنی گہرے امتیاز اور بربریت کو ظاہر کرتے ہیں، جو دلت برادریوں کی سلامتی اور عزت کے لئے ایک سنگین خطرہ ہیں۔ ریاستی حکومت کی ان مظالم کو روکنے میں ناکامی، قانون و امن و امان کی بحالی میں سنگین کوتاہی کو ظاہر کرتی ہے۔ جمعیت علماء ہند کی پریس کانفرنس میں مزید کہا گیا کہ کرناٹک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور پُرتشدد جرائم میں تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے۔ بی جے پی کے حامیوں نے کرپاڈی مسجد کے سامنے ’جے شری رام، جے مودی‘ کے نعرے لگائے۔ رائچور میں ایک ہندو انتہا پسند ہجوم نے زعفرانی جھنڈے لے کر عثمانیہ مسجد کے سامنے جشن منایا، جس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل پڑنے کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے والی پوسٹس کو پھیلایا جا رہا ہے، جس سے پہلے سے ہی مخدوش صورتحال مزید بگڑ رہی ہے۔ یہ سب واقعات ریاست میں عوامی نظم و ضبط اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بارے میں سنجیدہ خدشات کو بڑھا رہی ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کی پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ ریاستی حکومت کے ان بڑھتے ہوئے مسائل پر خاموشی خوف و ہراس اور عدم تحفظ کے ماحول کو تقویت مل رہی ہے جس سے عوام کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ کرناٹک میں حالیہ جرائم میں اضافہ، خاص طور پر گھریلو تشدد اور خواتین کے خلاف جرائم کی صورتحال بہت تشویشناک ہے۔ پریس کانفرنس میں مزید کہا گیا کہ حراستی اموات اور حالیہ واقعات کی روپورٹیں پولیس کی ناکامیوں کو اجاگر کرتی ہیں۔ حالیہ واقعات کی رپورٹیں پولیس کی ناکامیوں کو اجاگر کرتی ہیں، جن میں داونگیرے میں حراستی اموات اور اس کے بعد ہونے والے احتجاج شامل ہیں۔ ایک اور تشویشناک اور پریشان کن رجحان یہ ہے کہ این آئی اے افسران/پولیس ملزمان اور ان کے خاندانوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ تحقیقاتی ایجنسی ’این آئی اے‘ کے مطابق جرم قبول کریں یا ان کے ساتھی بنیں۔