اسلام ٹائمز۔ کئی سابق بیوروکریٹس اور سول سوسائٹی کی شخصیات نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں عرضی دائر کی ہے جس میں غازی آباد میں یتی نرسمہانند اور دیگر ہندوؤں انتہا پسندوں کی جانب سے اس ہفتے منعقد ہونے والی ہندوؤں کے اجتماعات پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ توہین عدالت سے متعلق درخواست میں ان لوگوں نے الزام لگایا ہے کہ اتر پردیش پولیس ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے، اس لئے انہیں سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑا ہے۔ درخواست میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ "مسلمانوں کی نسل کشی" کی کال دی گئی ہے۔ ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے درخواست دائر کرنے والے کچھ سابق بیوروکریٹس کی طرف سے پیش ہو کر چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی بنچ کو بتایا کہ درخواست کو فوری طور پر درج کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر سی جے آئی کھنہ نے درخواست گزار کے وکیل کو ای میل بھیجنے کی ہدایت دی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وہ اس کیس کی سماعت کرے گی۔ چیف جسٹس کھنہ نے کہا کہ میں اس پر غور کروں گا۔ براہ کرم ایک ای میل بھیجیں۔
درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے 2022ء میں مجرموں کے مذہب کو دیکھے بغیر نفرت انگیز تقاریر کے معاملات میں از خود کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ نرسمہانند پر بار بار مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کرنے کا الزام ہے۔ پرشانت بھوشن نے کہا کہ مسلمانوں کی نسل کشی کا عوامی مطالبہ کیا گیا ہے اور اس عرضی کی فوری سماعت کی ضرورت ہے کیونکہ ہندوؤں کے اجتماعات منگل سے شروع ہونگے۔ منگل سے ہفتہ تک غازی آباد کے ڈاسنا میں شیو شکتی مندر کے احاطے میں "یتی نرسنگھند فاؤنڈیشن" کے ذریعہ اجتماعات کا انعقاد کیا جانا ہے۔ بتادیں کہ 2022ء میں سپریم کورٹ نے تمام قابل اور مناسب حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ از خود نوٹس لیں اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں اور نفرت انگیز تقاریر میں ملوث افراد یا گروہوں کے خلاف کارروائی کریں۔
سماجی کارکنوں اور سابق بیوروکریٹس نے غازی آباد ضلع انتظامیہ اور اترپردیش پولیس کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے، جس میں ان پر سپریم کورٹ کے حکم کی جان بوجھ کر توہین کا الزام لگایا گیا ہے۔ عرضی گزاروں میں کارکن ارونا رائے، ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر اشوک کمار شرما، سابق آئی ایف ایس افسر دیب مکھرجی اور نواریکھا شرما و دیگر شامل ہیں۔ اس سے پہلے اتراکھنڈ کے ہریدوار میں منعقد ہندوؤں کے مذہبی اجتماعات میں مبینہ نفرت انگیز تقاریر کی وجہ سے تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا۔ یتی نرسمہانند سمیت کئی لوگوں کے خلاف فوجداری کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ درخواست میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ اس اجتماع کی ویب سائٹ اور اشتہارات میں اسلام کے پیروکاروں کے خلاف متعدد فرقہ وارانہ بیانات ہیں جو مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں۔