0
Friday 20 Dec 2024 22:37

پاراچنار میں اہل تشیع کے قتل عام سے دواوں کی قلت تک اسباب و محرکات  

پاراچنار میں اہل تشیع کے قتل عام سے دواوں کی قلت تک اسباب و محرکات  
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

ابھی اہل تشیع کے اوپر سفاکانہ حملوں کا زخم مندمل بھی نہ ہونے پایا تھا کہ پاراچنار پھر سے ایک اجتماعی منصوبہ بند نسل کشی کا شکار ہوگیا۔ جس طرح اس وقت پاراچنار میں مسلسل دواوں کی قلت ہے اور معمولی دوائیں بھی دستیاب نہیں، وہ آج کے جدید اور ترقی یافتہ دور کے لئے ایک کلنک ہے۔ بعض بہت معمولی دوائیں جو ہر دیہات و گاوں میں مل جاتی ہیں، جیسے پیناڈول کی گولی یہ بھی بعض ذرائع کے مطابق پاراچنار میں دستیاب نہیں تو بڑی بیماریوں کی بات ہی کیا۔ آکسیجن کی کمی سے بچے ماں باپ کی آغوش میں دم توڑ رہے ہیں۔ پاراچنار برضغیر کا غزہ بنا ہوا ہے، لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔

پاراچنار کی موجودہ حالت کے پیچھے اسباب و محرکات:
آپ نے چند ہفتے قبل سنا کہ کس طرح تکفیری عناصر نے محض شیعہ ہونے کی بنیاد پر گاڑیوں کے ایک قافلے پر حملہ کرکے عورتوں، بوڑھوں، جوانوں اور دودھ پیتے بچوں کو خاک و خون میں غلطاں کرکے شہید کر دیا۔ یاد رہے کہ پاراچنار، جو خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں واقع ہے، حالیہ دنوں میں شدید کشیدگی اور دہشت گردی کے واقعات کا شکار رہا ہے۔ اسی کے چلتے 22 نومبر 2024ء کو ایک مسافر قافلے پر ہونے والے حملے میں 100 کے قریب افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ دنیا کے انصاف پسند حلقوں نے اس واقعے کو انسانی حقوق اور امن کے خلاف سنگین جرم قرار دیا ہے۔ یہ ایسا واقعہ تھا، جس کی مذمت دنیا بھر کے مختلف سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے کی ہے۔ یہ حملے عموماً فرقہ وارانہ تشدد کے پس منظر میں ہو رہے ہیں، جس کے لئے پاکستان کی زمین ہمیشہ ہی زرخیز رہی ہے، مسلسل یہاں دہشت گرد عناصر پھلتے پھولتے رہے ہیں اور انہیں بیرونی تعاون بھی حاصل ہوتا رہا ہے۔

پاراچنار میں اہل تشیع کی موجودہ صورتحال:
اہل تشیع کے خلاف مسلسل حملوں اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں علاقے میں اشیائے خوردونوش کی قلت اور طبی سہولیات کی کمی شدت اختیار کرچکی ہے۔ ہر طرف سے بیماروں کی کراہنے، بچوں کے سسک سسک کر ماں باپ کے ہاتھوں میں دم توڑنے کے بعد ایک طرف والدین کی بلند فریادوں کو سنا جا سکتا ہے، جبکہ دوسری طرف حکومت نے حالات کو قابو میں لانے کے لیے پولیس اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کے ساتھ جرگے کے نظام کو فعال کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوشش اگر کامیاب بھی ہوئی تو محض تنازعات کو ختم کرسکتی ہے، مریضوں اور بیماروں کے لئے طبی سہولیات کی ضرورت ہے، جس پر کسی کی توجہ نہیں رہی۔ بات تنازعات کی تو وہ بھی اب تک مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکے ہیں۔ یہ صورتحال امن و امان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے مقامی و قومی سطح پر مضبوط اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ امن کے قیام کے لیے دیرپا حل اور تمام فریقوں کی شمولیت کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور سیرہ پیغمبر (ص) کو محور بنا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

قابل ذکر ہے کہ پاراچنار میں شیعہ قوم ایک طویل عرصے سے فرقہ وارانہ تشدد، زمین کے تنازعات اور دہشت گردی کے حملوں کا سامنا کر رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں، ان پر ہونے والے حملوں نے ان کی حالت کو مزید خراب کر دیا ہے۔ 22 نومبر 2024ء کو پیش آنے والے مسافروں کے قافلے پر حملے میں خواتین اور بچوں سمیت متعدد افراد کی شہادت ایک بار پھر اس مسئلے کو نمایاں کرتی ہے کہ ایک امن پسند قوم کو مسلسل نشانہ بنا کر کچھ لوگ اس وقت جب دنیا صہیونیزم کے خلاف متحد ہو رہی ہے، ایک مسلکی جنگ چھیڑ کر اس بات پر وادار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی جوابی کارروائیاں کرے اور پھر دشمن داخلی جنگ چھیڑ کر ایک اسلامی ملک کو درونی جنگ میں الجھا کر جہان اسلام کے بڑھتے دباو کو کم کرے۔

فرقہ وارانہ کشیدگی اور پاراچنار:
تاریخی پس منظر سے دیکھا جائے تو  پاراچنار میں شیعہ قوم کا وجود تاریخی طور پر اہم ہے، لیکن علاقے میں موجود دیگر قبائل کے ساتھ زمین کے تنازعات اور فرقہ وارانہ اختلافات کے باعث اس کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور ان تنازعات نے وقتاً فوقتاً تشدد کو جنم دیا ہے۔ حالیہ جھڑپیں واضح طور پر فرقہ واریت پر مبنی ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف جانی نقصان کا سبب بن رہی ہے بلکہ مقامی لوگوں کی روزمرہ زندگی کو بھی اس نے مفلوج کر رکھا ہے۔

انسانی بحران:
اشیائے خوردونوش کی قلت کی بنا پر لوگ مشکلات کا شکار ہیں، متاثرہ علاقوں میں اشیائے خوردونوش اور طبی امداد کی شدید قلت ہے، جس کے سبب خواتین، بچے  اور بزرگ سبھی پریشان ہیں اور سلامتی و حفظان صحت کو لیکر صورت حال تشویش ناک ہے۔ سلامتی کے خدشات کے ساتھ انٹرنیٹ اور موبائل سروسز کی معطلی، نقل و حرکت پر پابندی اور خوف کے ماحول نے مقامی لوگوں کی زندگی کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے جبکہ حکومت نے علاقے میں نیم فوجی دستوں اور پولیس کو تعینات کیا ہے اور امن کے قیام کے لیے جرگے کا نظام فعال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ وہ ساری چیزیں ہیں، جن سے کوئی بھی مطمئن نہیں ہے۔ اہل تشیع کے لیے پاراچنار میں حالات انتہائی نازک ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے مقامی قبائل کے درمیان امن معاہدے، ریاست کی مضبوط حکمت عملی اور انسانی امداد کی فوری ضرورت ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بغیر اس مسئلے کا مستقل حل ممکن نہیں۔ پاراچنار اور اس جیسے دیگر علاقوں میں اہل تشیع کے قتل عام کے مختلف اسباب اور محرکات ہیں، جن کی جڑیں سیاسی، مذہبی، سماجی اور جغرافیائی عوامل میں بہت گہری ہیں۔ ان میں سے چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

1۔ فرقہ وارانہ کشیدگی اور نظریاتی اختلافات:
مذہبی اختلافات:
شیعہ اور سنی مسالک کے درمیان عقائد میں موجود اختلافات کو بعض عناصر نے دشمنی میں تبدیل کر دیا ہے۔ شدت پسند گروہوں نے ان اختلافات کو استعمال کرتے ہوئے فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دی ہے۔ بارہا شیعوں کے خلاف گالی گلوچ کفر کے فتوے دینا، یہ وہ چیزیں ہیں، جنہوں نے جاہلوں کے دماغ میں انگارے بھر دیئے ہیں۔

شدت پسند تنظیموں کی مداخلت:
طالبان اور داعش جیسے گروہ فرقہ واریت کو ہوا دینے کے لیے حملے کرتے ہیں، جس کا مقصد شیعوں کو دباؤ میں رکھنا اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے دہشت کا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے، جبکہ مظلوم شیعہ مسلسل نشانہ بننے کے بعد بھی جوابی کارروائوں میں اسلامی اور اخلاقی اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کرتے۔ بسا اوقات جاہل و خبطی دشمن اسی کو کمزوری کے طور پر لیتا ہے۔

سیاسی و قبائلی تنازعات:
مسلکی و مذہبی منافرت کے علاوہ پاراچنار کے کئی تنازعات قبائلی دشمنیوں پر مبنی ہیں، جن میں زمین اور وسائل کے مسائل شامل ہیں۔ یہ تنازعات وقت کے ساتھ فرقہ واریت کا رنگ اختیار کر جاتے ہیں۔ حکومت کی عدم موجودگی یا موثر کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے یہ مسائل مزید بگڑتے ہیں اور شدت پسند تنظیمیں اس خلا کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

جغرافیائی و سیاسی اہمیت:
پاراچنار افغانستان کے قریب ہونے کی وجہ سے مختلف گروہوں کی رسائی میں ہے، جو سرحد پار دہشت گردی کو آسان بناتا ہے۔ یہ علاقہ اہم تجارتی اور نقل و حرکت کے راستے پر واقع ہے، جس کی وجہ سے یہاں طاقت کے حصول کے لیے مختلف گروہوں کے درمیان کشمکش رہتی ہے۔ مذہبی منافرت پر مبنی پروپیگنڈہ اتنا شدید ہے کہ تمام تر لسانی و قبائلی اختلافات ایک طرف اور پروپیگنڈہ ایک طرف، اس پروپیگنڈہ کا نشانہ وہ لوگ بنتے ہیں، جو جاہل ہیں۔ کم تعلیم یافتہ علاقوں میں مذہبی منافرت پر مبنی پراپیگنڈا زیادہ آسانی سے اثر کرتا ہے، جو مقامی آبادی کو شدت پسند عناصر کے لیے استعمال کے قابل بناتا ہے۔

علاوہ از ایں معاشی و سماجی مسائل بھی شدت پسندانہ کارروائیوں کا سبب بن جاتے ہیں، جن میں غربت اور بے روزگاری بہت اہم ہے۔ کمزور معاشی حالات کی وجہ سے لوگ شدت پسند تنظیموں کا حصہ بن جاتے ہیں، جو مالی یا نظریاتی مدد کے بدلے نفرت انگیز سرگرمیوں میں شامل ہونے والوں کو مالی تعاون فراہم کرتی ہیں۔ عالمی طاقتوں کے اثرات کو بھی یہاں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی مفادات جہاں ہر جگہ جڑے ہیں، وہاں پاکستان کی سرزمیں اس سے مستثنیٰ نہیں۔ مشرق وسطیٰ کے تنازعات کا اثر پاکستان کے شیعہ سنی تعلقات پر بھی پڑتا ہے، جہاں مختلف طاقتیں اپنے مفادات کے لیے فرقہ واریت کو بڑھاوا دیتی ہیں۔

کل ملا کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اہل تشیع کے قتل عام کے پیچھے مذہبی شدت پسندی، قبائلی تنازعات اور حکومتی ناکامی جیسے عوامل کارفرما ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ریاست، علماء اور عوام کو مل کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ، تعلیم کی بہتری اور شدت پسند تنظیموں کے خاتمے کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی اور ہم سب کو مل کر اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے آواز اٹھانا ہوگی۔ ساری دنیا کے شیعوں کو نظریات سے ماوراء ہو کر عاشقان حیدر کرار کے تحفظ کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ ہم اس مسئلہ کو کسی دوسرے ملک کا مسئلہ نہ سمجھ کر اپنا مسئلہ سمجھیں گے اور ہمیشہ کی طرح مظلوموں کے ساتھ کھڑے رہتے ہوئے ظالموں کو بے نقاب کریں گے۔

موجودہ صورتحال: 
پاراچنار حالیہ دنوں میں شدید فرقہ وارانہ کشیدگی اور راستوں کی بندش کے باعث سنگین مسائل کا شکار ہے۔ ان حالات نے خوراک اور ادویات کی قلت کو جنم دیا ہے، جس سے مقامی آبادی کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے، معمولی چوٹوں اور زخموں سے لوگ تڑپ رہے ہیں، ابتدائی طبی سہولیات کا فقدان ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر پڑ رہا ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں پاراچنار اور اس کے گردونواح میں امن و امان کی صورتحال بگڑ چکی ہے۔ راستوں کی بندش کے باعث شہر کا صوبے کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع ہوگیا ہے، جس سے اشیائے خوردونوش اور دیگر ضروری سامان کی ترسیل متاثر ہوئی ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق، اپر کرم کی تقریباً چار لاکھ آبادی محصور ہو کر رہ گئی ہے۔

ادویات کی قلت:
راستوں کی بندش کے باعث ہسپتالوں میں ادویات اور طبی سہولیات کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر اور نرسنگ سٹاف موجود ہونے کے باوجود، ادویات کی عدم دستیابی کے سبب مریضوں کا مؤثر علاج ممکن نہیں ہو پا رہا۔ شدید سردی اور معیاری علاج نہ ملنے کی وجہ سے ہسپتالوں میں اموات کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں کچھ بچے تو نمونیا جیسی بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں۔

بچوں کی صورتحال:
پاراچنار میں حالیہ کشیدہ حالات اور راستوں کی بندش کے باعث ادویات کی شدید قلت نے خاص طور پر بچوں کے لیے سنگین مسائل پیدا کیے ہیں۔

بچوں کی صحت اور فلاح کے تناظر میں ادویات کی قلت کے اثرات:
1۔ بچوں کی نازک جسمانی حالت:
بچے، خاص طور پر نوزائیدہ اور کمسن، بیماریوں کے خلاف کمزور مدافعت رکھتے ہیں۔
نمونیا، اسہال اور دیگر عام بیماریوں کے باعث بچوں کی اموات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ غذائی قلت کے شکار بچوں کو اضافی خطرات لاحق ہیں، کیونکہ ان کے جسمانی مدافعتی نظام کو مزید نقصان پہنچ رہا ہے۔

2۔ نمونیا اور سردی سے متاثرہ بچے:
سردیوں کے موسم میں نمونیا اور دیگر سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے، لیکن:
اینٹی بایوٹکس اور دیگر ضروری ادویات دستیاب نہ ہونے کے سبب علاج ناممکن ہو رہا ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق، دوا کی قلت کی وجہ سے کچھ بچوں کی موت ہوچکی ہے اور مزید بچوں کے بیمار ہونے کا خدشہ ہے۔

3۔ بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کی فراہمی میں رکاوٹ:
ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے بیماریوں جیسے خسرہ، پولیو اور دیگر متعدی امراض کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ ویکسینیشن کے پروگرامز معطل ہونے سے بچے زیادہ خطرے میں ہیں۔

4۔ ماں اور بچے کی صحت پر اثر:
حاملہ خواتین کے لیے زچگی کی ادویات دستیاب نہ ہونے کے سبب نومولود بچوں کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے اور زندگی کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔ زچگی کے دوران پیچیدگیوں کے نتیجے میں ماں اور بچے دونوں کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

5۔ ذہنی اور نفسیاتی اثرات:
بیماری اور علاج کی عدم دستیابی بچوں اور ان کے خاندانوں کے لیے نفسیاتی دباؤ کا باعث بن رہی ہے۔ بچوں کی ذہنی نشوونما متاثر ہو رہی ہے، کیونکہ وہ خوراک اور ادویات کی کمی کے ماحول میں پل رہے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ فوری امداد فراہم ہو۔ حکومت اور امدادی اداروں کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کرنے کے لیے متبادل راستوں کی تلاش کرنی چاہیئے۔ نیز علاقائی موبائل کلینکس متحرک کردار ادا کریں۔ ایسے علاقوں میں موبائل طبی یونٹس بھیجنا، جہاں بچوں کو فوری علاج کی ضرورت ہے، اشد ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ ادویات کا ذخیرہ بھی بعد کا مرحلہ ہے، جس کا آغاز ابھی سے ہونا چاہیئے، تاکہ مستقبل میں ایسی قلت سے بچا جا سکے۔ یہ سب اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک پاراچنار میں امن و اماں بحال نہ ہو۔

امن و امان کی بحالی اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے جلد از جلد امن اقدامات کیے جائیں، تاکہ خوردونوش کی اشیاء طبی سہولتوں اور دوائیوں کی سپلائی دوبارہ بحال ہوسکے۔ تمام مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کے ناطے سبھی کو مل کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ علاقے میں دواوں کی قلت نے بچوں کی صحت اور زندگیوں کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ فوری اور مؤثر اقدامات کیے بغیر ان معصوم جانوں کو بچانا مشکل ہوگا۔ بچوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دی جانی چاہیئے، تاکہ اس انسانی بحران پر قابو پایا جاسکے۔ مجلس وحدت مسلمین اور ایدھی فاؤنڈیشن ادویات اور دیگر ضروری سامان کی فراہمی کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، تاہم راستوں کی بندش کے باعث یہ امداد متاثر ہو رہی ہے۔

مقامی آبادی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر راستوں کو کھولنے اور امن و امان کی بحالی کے لیے مؤثر اقدامات کرے، تاکہ زندگی معمول پر آسکے۔ المختصر یہ کہ پارا چنار کی موجودہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ خوراک اور ادویات کی قلت نے عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ عوام کو درپیش مشکلات کا ازالہ ہوسکے اور علاقے میں امن و امان بحال ہو۔
خبر کا کوڈ : 1179841
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش