تحریر: کتایون مافی
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے تکفیری دہشت گرد عناصر سے مل کر شام پر قبضے کا منصوبہ بنایا اور اسے اپنے لیے اسلامی مزاحمتی بلاک پر غلبہ پانے کا سنہری موقع تصور کیا لیکن یہ اس کا محض ایک وہم تھا۔ شام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے نیتن یاہو کو بہت سی مشکلات کا شکار کر دیا ہے جن میں سے ایک صیہونی رژیم کی سرحد غیر مستحکم ہو جانا ہے جو نیتن یاہو کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ صدر بشار اسد کی حکومت گر جانے کے بعد نیتن یاہو نے اسے اپنے لیے سنہری موقع قرار دیا اور کہا: "دشمن قوتوں کو اسرائیلی سرحد کے قریب تعینات ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گا اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکنہ اقدام انجام دیں گے۔" اسی وجہ سے غاصب صیہونی رژیم نے شام پر فوجی چڑھائی کر دی اور گولان ہائٹس کے جنوب سے فوجی مشقدمی کرتے کرتے دمشق کے قریب تک جا پہنچی ہے۔
اس پریشانی کے نتیجے میں غاصب صیہونی رژیم شام کے سرحدی علاقوں پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے درپے ہے۔ لہذا اس علاقے کو بفر زون قرار دے کر اس پر فوجی قبضے کو گولان ہائٹس میں یہودی آبادکاروں کی تعداد دو گنا بڑھا کر یہودی ملک کی حفاظت کے لیے عارضی قدم قرار دیا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیانیہ جاری کیا ہے جس میں اعلان کیا ہے کہ حکومت نے اتفاق رائے سے 40 ملین شیکل (11 ملین ڈالر) کا بجٹ منظور کیا ہے جس کا مقصد گولان ہائٹس میں آبادی کا تناسب بڑھانا ہے۔ نیتن یاہو نے یہ فیصلہ امریکہ کی مکمل حمایت سے کیا ہے اور اس نے امریکہ کے منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے امید لگا رکھی ہے کہ وہ گولان میں یہودی بستیوں میں توسیع کی حمایت کرے گا۔ یاد رہے، ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلا امریکی صدر تھا جس نے گولان ہائٹس کو سرکاری طور پر اسرائیل کا حصہ قرار دیا تھا۔
سعودی عرب نے اس بارے میں اعلان کیا ہے: "اسرائیل کی جانب سے گولان ہائٹس میں یہودی بستیوں کی توسیع کا فیصلہ قابل مذمت ہے اور گولان ایک عرب سرزمین ہے جو شام کی ملکیت ہے اور مقبوضہ ہے۔" یمن کی وزارت خارجہ نے بھی اس بارے میں ایک بیانیہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم شام میں رونما ہونے والے حالات کا فائدہ اٹھا کر اس ملک کی طاقت ختم کر رہا ہے۔ بیانیے میں مزید آیا ہے: "غاصب صیہونی حکمرانوں کی جانب سے گولان ہائٹس میں یہودی بستیوں کی توسیع کا فیصلہ عالمی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامت کونسل کی قرارداد 497 کے مطابق گولان ہائٹس شام کی ملکیت ہے اور صیہونی رژیم نے اس پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔" ترکی کی وزارت خارجہ نے بھی گولان ہائٹس میں یہودی بستیوں کی توسیع کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔
تکفیری دہشت گرد گروہ ھیئت تحریر الشام کا سربراہ ابومحمد الجولانی بھی دلچسپ شخصیت کا مالک ہے۔ وہ القاعدہ اور داعش کا رکن رہ چکا ہے اور امریکہ نے اس کے سر پر انعام لگا رکھا تھا۔ اگرچہ آج کل وہ خود کو انتہائی ماڈرن اور مہذب ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن دنیا والے اس کا ماضی نہیں بھولے اور اس کے کردار میں تبدیلیاں بھی اتنی تیزی سے آئی ہیں کہ حقیقت سب پر واضح ہے۔ عالمی امور کے ماہر اور اخبار وزگلیاد کے کالم نگار، سرگے میرکین اس بارے میں لکھتے ہیں: یہ بات مشکوک ہے کہ ایسی تاریخ کا حامل شخص حقیقت میں اسرائیل سے دوستی کا ارادہ رکھتا ہو۔ صیہونی رژیم بھی مطمئن نہیں ہے کہ جولانی طویل مدت تک اقتدار میں باقی رہ سکے گا۔ وہ گروہ جو بشار اسد کی حکومت گرانے کے لیے آپس میں متحد ہوئے ہیں، نظریاتی اور قومیتی لحاظ سے ایکدوسرے سے بہت مختلف ہیں اور ایکدوسرے کو قبول نہیں کرتے۔"
اسرائیل نے شام کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے لیکن شام کی تقسیم بھی اسرائیل کو درپیش مشکلات میں کمی کا باعث نہیں بن سکتی۔ اسرائیل کو شام میں سرگرم تمام قوتوں سے لڑنا پڑے گا جن میں ترکی کے پراکسی مسلح گروہ بھی شامل ہیں۔ اسی وجہ سے مستقبل قریب میں شام میں جھڑپوں کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کردستان کا علاقہ خودمختار ہو جاتا ہے اور شام سے علیحدگی اختیار کر لیتا ہے تو ٹکراو میں مزید شدت آ جائے گی۔ شام میں سرگرم مسلح دہشت گرد گروہ مستقبل قریب میں اردن میں بھی عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں جس کے نتیجے میں حتی ہاشمی خاندان کی سربراہی میں موجود حکومت بھی سرنگون ہو سکتی ہے۔ یوں ایک ایسی حکومت کی جگہ جس نے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات برقرار کر رکھے ہیں ایسی نئی قوت برسراقتدار آ جائے گی جو اسرائیل سے جنگ کے درپے ہو گی۔
بنجمن نیتن یاہو نے دعوی کیا ہے کہ شام میں صدر بشار اسد کی سرنگونی، ایران اور حزب اللہ پر اسرائیلی حملوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شام میں رونما ہونے والے حالات خطے میں ایران اور حزب اللہ لبنان کے اثرورسوخ میں مزید اضافے کا باعث بن سکتے ہیں جو اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے شدید خطرہ ہو گا۔ توجہ رہے کہ ابومحمد الجولانی نے اس بارے میں کہا ہے: "شام میں اسرائیل کے اقدامات لبنان سے جنگ بندی کے بعد انجام پائے ہیں اور اس وقت حالات ایسے تھے کہ اس نے حزب اللہ کو شام حکومت کے مخالفین کے مقابلے میں موثر کردار ادا کرنے سے روک رکھا تھا۔" نیتن یاہو اس وقت کئی چیلنجز سے روبرو ہے۔ عدالتی اصلاحات کے باعث عوامی احتجاج جبکہ شدید اقتصادی مشکلات کے باعث عوام کی ناراضگی۔ کرپشن کے مقدمات نے نیتن یاہو کی سیاسی پوزیشن متزلزل کر رکھی ہے جبکہ عرب ممالک سے تعلقات کی بحالی کا سلسلہ بھی رکا ہوا ہے۔