رپورٹ: جاوید عباس رضوی
بھارت میں بیک وقت متعدد تشویشناک واقعات رونما ہوئے۔ اترپردیش کے سنبھل کی جامع مسجد سے لے کر درگاہ اجمیر شریف تک کے "سروے" کے لئے عدالتوں میں دائر کی گئی درخواستوں کا سیلاب آگیا۔ مراد آباد اور بریلی میں مسلمانوں کی جانب سے گھر خریدنے پر ہندو پڑوسیوں نے ہنگامہ شروع کر دیا ہے۔ یہ سب الگ الگ واقعات نظر آتے ہیں لیکن ان سے مغربی اترپردیش میں کشیدگی و تناؤ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ نومبر کے آخری ہفتہ میں اس فرقہ وارانہ تناؤ کے سبب سنبھل میں فساد برپا ہوگیا، جس میں پانچ مسلماںوں کی جان چلی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے، کیونکہ اس نے پیلٹ گن سے ربڑ کی گولیاں چلائی تھیں، وہ اصل گولیاں نہیں تھیں۔ تاہم موقع پر تمام شاہدین اور وہاں کی وائرل ویڈیوز کہہ رہی ہیں کہ پولیس نے چھوٹے ہتھیاروں کا استعمال کرکے نوجوانوں پر راست گولیاں چلائی تھیں۔
یہ فساد شاہی جامع مسجد کے جلد بازی میں کئے گئے آثار قدیمہ سروے کے بعد ہوا تھا۔ یہ سروے بھی عدالت نے اتنی ہی جلد بازی میں جاری کئے گئے حکم کا نتیجہ تھا۔ جلد بازی کی اس جگل بندی پر شبہ بھی اس لئے ہی ہوتا ہے کہ درخواست گزار نے صرف اس عمارت میں پوجا کرنے کی اجازت طلب کی تھی، جو آثار قدیمہ کی حفاظت میں ہے۔ جس دن عدالت میں درخواست دائر کی گئی، اسی دن محکمہ آثار قدیمہ نے عدالت کو بتایا کہ اسے سروے کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ محکمہ نے اسی سال جون میں مسجد کا سروے کیا تھا، اس کے پہلے 1998ء اور 2018ء میں بھی اس کا سروے ہوچکا ہے۔ اس دوران محکمہ نے مسجد کی حفاظت اور دیکھ ریکھ کا کوئی کام نہیں کیا۔ بھارتی ریاست اترپردیش کی حکومت نے سنبھل میں بیرونی افراد کے لوگوں کے داخلہ پر روک لگا دی۔
اس کا استعمال خصوصی طور پر سیاسی رہنماؤں، سماجی کارکنوں، صحافیوں، حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والی ٹیموں اور کارکنوں کو وہاں جانے سے روکنے کے لئے کیا گیا۔ تشدد بھڑکنے سے ایک دن قبل شام کو سنبھل کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق بنگلورو میں تھے۔ انہیں اپنے انتخابی حلقہ میں آنے سے روک دیا گیا۔ سروے سے قبل یا بعد میں امن اور ہم آہنگی قائم کرنے کے لئے شہری تنظیموں کی کوئی امن کمیٹی قائم نہیں کی گئی۔ دریں اثناء مظفر نگر ایک مرتبہ پھر خبروں کی سرخی بن گیا ہے۔ یہاں ریلوے اسٹیشن کے قریب بنائی گئی ایک مسجد کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ یہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی زمین پر بنی ہے، اس لئے اسے دشمن کی جائیداد قرار دیا جائے۔ دوسری جانب یہ بتایا گیا کہ یہ مسجد 1930ء میں ہی وقف کے طور پر عطیہ کی گئی تھی، اس اعتبار سے یہ تقسیم کے وقت لیاقت علی کی ملکیت نہیں تھی۔ اس دوران کچھ خبریں سامنے آئیں کہ مقامی انتظامیہ نے اس مسجد کو دشمن کی جائیداد قرار دینے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔
اسی دوران بدایوں کی شاہی جامع مسجد کا تنازع بھی سرخیوں میں آگیا ہے۔ 800 سال پہلے شمس الدین التمش کے حکم پر تعمیر ہونے والی اس مسجد کے بھی مندر ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ مقامی سماجی کارکن راکیش رفیق کا کہنا ہے کہ مغربی اترپردیش کے لوگ کبھی بھی فرقہ وارانہ نہیں رہے ہیں۔ سابق مرکزی وزیر سومپال شاستری بھی تقریباً ایسا ہی بیان دیتے ہیں، لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ پورے مغربی اترپردیش میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی جو کوششیں تقریباً ایک دہائی پہلے شروع ہوئیں، اب وہ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ ہر ضلع اور ہر قصبے میں ایسی مساجد کی تلاش کی جا رہی ہے، جن کے مندر ہونے کا دعویٰ کیا جا سکے۔ مظفر نگر کے اس کشیدہ ماحول کے ایک ہفتے کے اندر ہی پڑوسی ضلع مراد آباد کی ایک کالونی ٹی ڈی آئی سٹی میں ہنگامہ شروع ہوگیا۔ وہاں رہنے والے ایک ہندو ڈاکٹر نے اپنا گھر ایک مسلم ڈاکٹر جوڑے کو بیچ دیا تھا۔ کئی مقامی افراد نے احتجاج کرتے ہوئے گھر کی رجسٹری منسوخ کرنے کی مانگ کی۔ اس غیر جائز مطالبے کو دبانے یا لوگوں کو خاموش کرانے کی بجائے مقامی انتظامیہ درمیان کا راستہ اختیار کرتی نظر آئی۔
ستمبر میں ایسا ہی ایک واقعہ مظفر نگر میں بھی پیش آیا تھا، جہاں بھارتی کالونی میں ایک مسلم خاتون نے مکان خریدا تو کچھ ہندو تنظیموں نے لوگوں کو اُکسا کر ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اس سے کچھ دن پہلے ایسا ہی ایک واقعہ بریلی میں بھی ہوا تھا۔ یہ سب کچھ کم یا زیادہ پورے بھارت میں ہو رہا ہے، لیکن جس پیمانے پر اور جس شدت سے اسے مغربی اترپردیش میں کیا جا رہا ہے، وہ پریشان کن ہے۔ انتظامیہ کی غفلت اور بی جے پی کے لیڈروں کی جانب سے فرقہ واریت کو ہوا دینا یہاں کا مستقل رجحان بن چکا ہے۔ اس کی ابتداء 2013ء کے مظفر نگر فسادات سے ہوئی تھی۔ ان فسادات میں علاقے کے موثر جٹ طبقے کو مسلمانوں کے خلاف اُٹھا کر تصادم میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی تھی۔ 44 سے زیادہ لوگوں کی جان لینے والا یہ فساد اگرچہ اپنی کوشش میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہوسکا، لیکن اس نے مغربی اترپردیش کو وہ دھبہ دیا، جسے بعد میں دھونا ممکن نہیں تھا۔
اس وقت ریاست میں سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی۔ بی جے پی کو لگ رہا تھا کہ اقتدار میں واپسی کا راستہ اس کشیدگی کو مسلسل بڑھا کر ہی کھولا جا سکتا ہے اور بی جے پی اس منصوبے میں بہت حد تک کامیاب بھی رہی ہے۔ جب اسمبلی انتخابات آئے تو اس کشیدگی کو نئے انداز سے ہوا دی گئی۔ تب تک مرکز میں نریندر مودی کی حکومت بن چکی تھی۔ یہ کہا گیا کہ کیرانہ میں ہندوؤں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بھارت کے اخباروں اور ٹیلی ویژن پر ایسے گھروں کی تصاویر دکھائی گئیں، جن کے باہر لکھا تھا "فروخت کے لئے۔" اتنا ہی نہیں، بی جے پی نے ایسے ہندو خاندانوں کی فہرست بھی جاری کر دی، جو وہاں سے اپنے گھروں کو چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے تھے۔ ان تمام تنازعات کے درمیان انسانی حقوق کمیشن بھی متحرک ہوگیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ پوری کہانی جھوٹ تھی، جو صرف بی جے پی نے انتخاب جیتنے کے لئے بنائی تھی۔
ایسی ہی کہانیوں کی مدد سے بی جے پی نے نہ صرف انتخابات جیتے بلکہ اترپردیش میں اپنی حکومت بھی بنائی۔ سومپال شاستری اس کہانی کے ایک اور پہلو کی طرف دھیان دلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغربی اترپردیش میں یہ ساری تبدیلی 2009ء میں شروع ہوئی، جب جٹ لیڈر چودھری اجیت سنگھ نے بی جے پی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے انتخاب لڑا۔ اس سے بی جے پی کو مغربی اترپردیش میں پاؤں جمانے کا موقع ملا۔ کچھ دن پہلے مظفر نگر کا ایک ویڈیو سرخیوں میں آیا تھا، جس میں ایک استاد نے کلاس کے تمام بچوں کو ایک مسلم طالب علم کو باری باری پیٹنے کے لئے کہا تھا۔ پانچ دسمبر کو خبر آئی کہ اس استاد کو ضمانت دے دی گئی ہے۔ اترپردیش کے وزیراعلٰی یوگی آدتیہ ناتھ نے ہمیشہ کی طرح آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا۔ انہوں نے سنبھل کے فسادات کی موازنہ بنگلہ دیش میں ہو رہی وارداتوں سے کیا۔
ایودھیا رام کتھا پارک میں رامائن میلے کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 500 سال پہلے بابر نے جو کچھ کمبھ میں کیا تھا، وہی بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے اور وہی سنبھل میں بھی ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تینوں واقعات کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ اترپردیش کے ہندو شدت پسند وزیراعلٰی کے اس خطاب کے تین دن بعد غازی آباد میں ہندو تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف ایک بڑا احتجاجی جلوس نکالا۔ سماجی کارکن راکیش رفیق کا کہنا ہے کہ مغربی اترپردیش اس وقت جس حالت میں ہے، وہاں کچھ بھی کرنے کی گنجائش بہت محدود ہوچکی ہے۔ ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر بتاتے ہیں کہ حالات اب کافی بدل چکے ہیں۔ پہلے جب کہیں کشیدگی ہوتی تھی تو مقامی انتظامیہ تمام فرقہ وارانہ برادریوں کے لوگوں کو ساتھ لے کر قومی یکجہتی کمیٹی بناتی تھی۔ اس کے لوگ کشیدگی زدہ علاقوں میں جا کر لوگوں سے امن قائم رکھنے کی اپیل کرتے تھے، لیکن اب انتظامیہ کی جانب سے ایسی کوئی کوشش نہیں کی جاتی ہے۔