0
Thursday 19 Dec 2024 17:13

فلسطین کاز کو کس نے دھوکہ دیا؟

فلسطین کاز کو کس نے دھوکہ دیا؟
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان

عالمی سیاسی منظر نامہ پر شامی حکومت کے سقوط کے بعد اسرائیلی جارحیت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ فلسطین کاز کے ساتھ ایک بڑی خیانت اور دھوکہ بازی کی گئی ہے۔ اس بات کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ آخر یہ خیانت اور دھوکہ بازی کس نے کی ہے۔؟ اس سوال کا جواب عالمی ذرائع ابلاغ پر تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ امریکی جریدے پرائم نیوز ڈائجسٹ نے اداریہ میں شام کی حکومت کا سقوط اور اس سے منسلک شام کی موجود صورتحال پر لکھا ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوگان وہ شخص ہے، جس نے فلسطین کاز اور فلسطینیوں کو دھوکہ دیا ہے اور فلسطین کا مستقبل تباہ کر دیا۔ حالانکہ اس رائے کے برعکس ایک رائے یہ بھی موجود ہے کہ شام کی موجودہ صورتحال میں اگر چہ فلسطین کاز کو نقصان پہنچا ہے، لیکن آنے والے وقت میں شام میں ایک نیا انقلاب بھی ابھر سکتا ہے یا پھر ایک مزاحمت کی باقاعدہ تحریک بھی اٹھ سکتی ہے۔

لیکن اس وقت سوال یہ ہے کہ پیٹھ پر خنجر کس نے گھونپا ہے۔؟ اس سوال کا جواب امریکی جریدے نے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ رجب طیب اردوگان نے بڑی مہارت کے ساتھ اپنے لوگوں کو اس بات کا یقین دلوایا کہ وہ فلسطین کاز کے بہت بڑے حامی ہیں اور اس کام کے لئے انہوں نے عوامی اجتماعات میں فلسطین کے حق میں بڑی بڑی باتیں کی ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے ہی مسلسل اسرائیل کو لوہا، سیمنٹ، کھانے پینے کی اشیاء کی سپلائی بھی جاری رکھی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب غزہ کے لوگوں کو بھوک اور قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ امریکی جریدے نے لکھا ہے کہ اردوگان کی اچھی بیان بازی کے باوجود بھی تلخ حقائق چھپائے نہیں جا سکتے۔ اردگان نے اپنے اتحادی امریکہ کے ساتھ مل کر فلسطین کے مستقبل کو تباہ و برباد کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

طیب اردوگان نے شام کے صدر بشار الاسد کا تختہ الٹنے کی کوششوں میں فعال طور پر حصہ لے کر ایک جغرافیائی سیاسی تباہی کا مرحلہ طے کیا ہے، جس نے نہ صرف شام کو تباہ کیا ہے بلکہ اس مزاحمتی محور کو بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، جو ہمیشہ سے فلسطین کی حفاظت کر رہا تھا۔ امریکی جریدے نے شام کے زوال کے لئے ترک صدر کی کوششوں کو ایک بڑی Mis Calculation قرار دیا ہے۔ اسد کو گرانے کی مسلسل مہم آزادی یا جمہوریت کے بارے میں کبھی نہیں تھی۔ یہ مزاحمتی محاذ کو ختم کرنے کے بارے میں تھا، جو کہ خطے میں اسرائیلی توسیع اور مغربی سامراجی عزائم کے خلاف کھڑا تھا۔ اردگان نے اپنے عوام کی رائے کے برخلاف جاتے ہوئے شام کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے انتہاء پسند گروہوں کو مسلح کیا اور ان کی بھرپور معاونت کی اور امریکہ کے مشن کو انجام دیا ہے۔

امریکی جریدے نے اداریہ میں مزید لکھا ہے کہ ترک صدر کی شام مخالف مہم نے خطے میں اسرائیل کو مضبوط اور طاقتور ہونے کا موقع بھی فراہم کر دیا ہے۔ شام کی تباہی اور بربادی سے اب اسرائیل بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ تجزیہ کے مطابق اب اسرائیل "عظیم تر اسرائیل" کے تصور کو آگے بڑھائے گا۔ اردوگان کے اقدامات نے مؤثر طریقے سے اسرائیل کو وقتی طور پر اسٹریٹجک فتح دلائی ہے اور فلسطین کے اتحادیوں کو کمزور کیا ہے، لیکن شاید یہ زیادہ دیر تک باقی نہ رہے۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اردوگان نے ایک تیر سے کئی شکار کئے ہیں۔ ایک طرف فلسطین کاز کو کمزور کیا ہے اور ساتھ ساتھ فلسطین کاز کے حامیوں جن میں خود فلسطینیوں کے گروہ حماس اور جہاد اسلامی شامل ہیں، ان کو بھی شام کے سقوط سے نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح فلسطین کاز کی ایک اور بڑی حامی تنظیم حزب اللہ کے لئے بھی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔

حماس اور دیگر فلسطینی گروہ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے لاجسٹک، عسکری اور سیاسی طور پر شام کی حمایت پر انحصار کرتے تھے۔ لیکن اردوگان کی دھوکہ دہی نے ان کی پیٹھ پر خنجر کا وار کیا ہے، جس کا زخم جلد بھرتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ ترکی نے شام میں مسلح افراد اور گروہوں کے پہنچنے کے لئے اپنی سرحد کھول رکھی ہے اور دنیا بھر سے آئے ہوئے دہشتگرد جن میں پاکستان، ترکی، افغانستان، چیچنیا، لیبیا سمیت دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں۔ اردوگان کی پالیسیوں نے غزہ کو ایک عجیب مشکل میں مبتلا کر دیا ہے۔ اردگان کا امریکہ کے ساتھ تعاون ان کے عزائم کی اصل نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکی پالیسیوں پر عوامی تنقید کے باوجود، اردوگان کے اقدامات امریکی جیو پولیٹیکل اہداف کے ساتھ مسلسل ہم آہنگ ہیں۔

انہوں نے مل کر شام کی شکست کو منظم کیا، اسرائیل کے تسلط کی راہ ہموار کرتے ہوئے اس کی مخالفت کا بہانہ کیا۔ آج ڈونلڈ ٹرمپ بھی اردوگان کے کردار کی تعریف کر رہے ہیں۔ امریکہ اور ترک شراکت داری نے نہ صرف شام کو غیر مستحکم کیا بلکہ روس اور ایران کے خلاف بھی اقدامات کئے ہیں، جو پہلے ہی مغربی تسلط کے خلاف مزاحمت کے دو اہم کھلاڑی ہیں۔ اردوگان کے دوغلے پن نے ایران اور روس جیسے ممالک کے ساتھ ترکی کے تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے اور اس اتحاد کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے، جو کبھی مشرق وسطیٰ میں سامراجی جارحیت کے خلاف کھڑا تھا۔ شام کا سقوط شامی عوام کے لیے صرف ایک المیہ نہیں ہے بلکہ خطے میں طاقت کے توازن میں ایک زلزلہ ہے فلسطینیوں کی آزادی کا خواب توڑنے کی ایک کوشش ہے۔ طوفان اقصیٰ کے بعد جو عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے سے گریز کر رہے تھے، اب دوبارہ سے سعودی عرب اور دیگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے پر تیار ہو رہے ہیں۔

یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ اردگان کی فلسطین کے لئے بیان بازی صرف اور صرف ان کا منافقانہ رویہ تھا۔ روس کے لئے شام ایک کلیدی حیثیت رکھتا تھا، لیکن ترک صدر اردوگان نے روس کی سکیورٹی کو بھی نیٹو کے سامنے خطرے میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اردوگان کے اقدامات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ فلسطین کے محافظ نہیں ہیں بلکہ ایک خود غرض موقع پرست ہیں، جن کے اقدمات نے خطے میں تباہی مچا دی ہے۔ شام کی تباہی میں امریکہ کے ساتھ اتحاد کرکے اس نے فلسطینی کاز سے غداری کی ہے، علاقائی مزاحمت کو کمزور کیا ہے اور اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کو خطے پر تسلط قائم کرنا کا موقع فراہم کیا ہے۔ لہذا اردگان کو ہمیشہ ایک دھوکہ باز کے عنوان سے ہی یاد کیا جائے گا۔ شام کے حالات جیسے ہیں، ایسے ہرگز نہیں رہیں گے اور امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی شامی جوانوں کی ایک مزاحمت شام کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑی ہوگی اور شام کو غیر ملکی دہشتگردوں اور اسرائیل سے نجات دلوائی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 1179269
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش