شہید سید حسن نصراللہ کی بیٹی کا خصوصی انٹرویو
مزاحمت کا خاتمہ اسرائیل کے لیے ایک ناقابل تکمیل خواب ہے
زینب نصراللہ کا مزید کہنا تھا کہ صیہونیوں کا خیال تھا کہ سید حسن نصر اللہ کو شہید کرکے وہ مقاومت و مزاحمت کو ختم کرسکتے ہیں لیکن اسرائیلی حکومت کا یہ نظریہ بالکل غلط ہے۔ سید حسن جانتے تھے کہ وہ اپنے نظریات کے دفاع کے راستے میں شہید ہو جائیں گے۔ تاہم انہوں نے اسرائیلی قبضے اور امریکی تسلط کے خلاف اپنی مزاحمت جاری رکھنے میں کبھی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
کچھ لوگ سوچ سکتے ہیں کہ سید نصراللہ تہہ خانے میں رہتے تھے۔ ایک ایسا بیانیہ جسے صیہونی دشمن نے مسلسل پھیلانے کی کوشش کی ہے، حالانکہ یہ بیانیہ سراسر غلط ہے اور ہر کسی کو اس سے آگاہ ہونا چاہیئے کہ وہ اپنے عوام اور مجاہدین کے ساتھ رہتے تھے۔ سید حسن نصراللہ مزاحمت کے اہم ستون اور فلسطینی کاز کے عظیم ہیرو ہونے کے علاوہ ایک خاندان سے محبت کرنے والے فرد تھے، وہ ایک مہربان باپ اور ایک خیال رکھنے والے دادا تھے، حالانکہ انہیں اپنے خاندان سے ملنے کا موقع کم ہی ملتا تھا۔
سید حسن نصراللہ ایسے عالم میں غاصب طاقتوں کے خلاف کھڑے ہوئے، جبکہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں نے خاموشی سے معصوم جانوں کے ضیاع کا مشاہدہ کیا۔ سید حسن کے لیے لوگوں کی زندگیاں بچانا، ان کے معاشی حالات درست کرنا، عوام کی صحت کی دیکھ بھال کا نظام مستحکم کرنا اور معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنا ہمیشہ ترجیح رہی ہے۔ وہ اپنے آپ کو کسی بھی طرح اور ہر سطح پر دوسروں کی مدد کرنے کا پابند سمجھتے تھے۔ سید حسن نصراللہ کا پورا خاندان تمام جنگ کے دوران بیروت میں رہا۔ ہمارے فرار کے بارے میں افواہوں کے برعکس ہم سب حزب اللہ کے بہن بھائیوں کے ساتھ رہے اور ایک دوسرے کے غموں اور تکالیف میں شریک رہے۔
اسرائیلی حکومت مزاحمت کی اصل نوعیت کو نہیں سمجھتی اور یہ بھی نہیں سمجھتی کہ مزاحمت کسی ایک شخص پر انحصار نہیں کرتی، خواہ وہ کتنی ہی نمایاں کیوں نہ ہو۔ یہ بات ثابت ہوگئی کہ لبنانی قوم کے خلاف وحشیانہ جارحیت کے باوجود صیہونی حکومت اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکی۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ خطے میں مزاحمتی محاذ کے ایک اہم رہنما کو ہٹانے سے مزاحمتی تحریک ختم ہوسکتی ہے، لیکن یہ ایک خیال ہے اور محال ہے۔