تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
عالمی سیاسی منظر نامہ پر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں نے راقم کو اس نقطہ کی طرف متوجہ کیا ہے کہ کیا دنیا میں اب مسلمان صیہونی بھی موجو دہیں۔؟ اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ صیہونیت یا صیہونزم کی ایک مختصر تعریف پیش کی جائے۔ صیہونزم یا صیہونیت کیا ہے؟ صیہونیت کی جڑیں اُنیسویں صدی میں ہیں۔ آخر یہ صیہونیت کیا ہے؟ صیہونزم کے بانی اور صیہونزم کے ماننے والے کہتے ہیں کہ اس کی ابتداء تھیوڈر ہرٹزل نامی شخص نے سنہ1896ء میں اس وقت کی، جب اس نے ایک کتاب ڈر جڈنسٹاٹ لکھی اور اس کتاب میں دنیائے یہود کے لئے ایک علیحدہ یہودی مملکت کا تصور پیش کیا۔ تاریخی اعتبار سے اسی تحریک کو ہی صیہونزم کی بنیاد یا نقطہ آغاز قرار دیا جاتا ہے۔ اب جبکہ یہودیوں نے اپنے لئے فلسطین میں ایک صیہونی ریاست بعنوان اسرائیل قائم کر لی ہے تو اب اس صیہونیت کا نظریہ کچھ اس طرح سے ہے۔
غاصب اسرائیل میں بسنے والے یہودی یا صیہونی صیہونیت کی اصطلاح کو ایک ایسے مضبوط اسرائیل سے مراد لیتے ہیں، جو اپنے دشمنوں کے مقابلے پر ڈٹ کر کھڑا رہتا ہے اور خاص طور پر مغربی کنارے کے یہودی آبادکاروں کا ساتھ دیتا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے یہودی آبادکار خود کو وہ "حقیقی صیہونی" گردانتے ہیں، جن کا گویا یہ فرض ہے کہ وہ نتائج کی پروا کیے بغیر پوری مقدس سرزمین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کریں۔ اس کام کے لئے چاہے ان کو کسی کا خون بہانا پڑے یا قتل عام بھی کرنا پڑے تو دریغ نہ کریں۔ ایسا ہی کچھ سرزمین فلسطین پر سنہ1948ء سے جاری ہے۔یعنی 76 سالوں سے فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے اور اس کی جڑ صیہونیت ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ صیہونیت کے اس نظریہ میں بھی جدت آتی رہی ہے۔ تاریخ میں بیان کیا گیا ہے کہ جیسے جیسے خطے میں تبدیلیاں رونماء ہوئیں، ویسے ویسے صیہونیت بھی تبدیلیوں کا شکار رہی۔
یعنی پہلے پہل تو یہ صرف یہودیوں تک محدود رہی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسیحی اقوام میں بھی پھیلنے لگی۔ یعنی ہر وہ مسیحی جو صیہونزم کے بنیادی نظریہ یعنی اسرائیل کے قیام کی حمایت کرے اور اس کے اقدامات کو جائز قرار دے، وہ اس نظریہ کا حامی بن جاتا ہے۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں عیسائیوں نے یہودیوں کے ساتھ جنگیں لڑی ہیں اور بڑے پیمانہ پر یہودیوں کا قتل عام کیا گیا، لیکن آج کی عیسائی اقوام میں ہمیں رفتہ رفتہ اسرائیل کے صیہونیت والے نظریہ کی ہمدردی نظر آرہی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ خفیہ یا اعلانیہ طور پر یہودی و عیسائی صیہونیوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ پھر تاریخی شواہد یہ بھی بتاتے ہیں کہ عیسائی اور یہودی مرد و عورتوں کی شادیوں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ایک نسل جو کبھی یہودی صیہونی ہے اور کبھی عیسائی صیہونی ہے، موروثی طور پر ظاہر ہوچکی ہے۔
ایسی بھی اطلاعات آرہی ہیں کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے ایجنٹوں نے عرب دنیا میں مسلمان عورتوں سے شادیاں کی ہیں اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد حقیقت میں یہودی یا صیہونی ہے۔ حال ہی میں بین الاقوامی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ شام میں قابض ہونے والے ابو محمد الجولانی حقیقت میں ایک صیہونی یہودی موساد ایجنٹ کی اولاد میں سے ہیں کہ جس نے ایک مشن کے دوران ایک مسلمان لڑکی کے ساتھ شادی کی اور اس کے نتیجہ میں جولانی پیدا ہوا۔ ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ بہرحال ایسی رپورٹس اور اطلاعات کے بعد ایک اور بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جہاں دنیا میں مسیحی صیہونیت اور یہودی صیہونیت کا وجود تھا، اب اس کے ساتھ ساتھ دنیائے اسلام یعنی مسلم دنیا میں بھی صیہونی مسلمان پائے جانے لگے ہیں۔
جو بھی مسلمان صیہونیت کے نظریہ کی حمایت کے ساتھ کھڑا ہے، اسے بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ پر مسلمان صیہونی تصور کیا جائے گا۔ اسی کا نام عالمی صیہونزم ہے۔ یعنی صیہونزم اب صرف یہودیوں یا اسرائیل تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ صیہونزم اب عیسائی اقوام کے ساتھ ساتھ مسلمان اقوام میں بھی پہنچ چکی ہے۔ حالیہ دنوں فلسطین و لبنان سمیت شام میں رونماء ہونے والے حادثات نے مسلمان صیہونزم کی قلعی کو مزید چاک کرکے رکھ دیا ہے کہ جہاں دنیا کے مختلف ممالک میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے نظریہ کی حمایت کے لئے مسلمان صیہونی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اگر ایک جملہ میں بیان کیا جائے تو شام کا مسئلہ بھی مسلمان صیہونیوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ مسلمان صیہونی کبھی پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں، جو عام طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے اور اسرائیل کی صیہونیت کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینی عوام کے جائز حق سے ان کو دستبردار کر دیا جائے اور جو کچھ 76 سالوں سے صیہونیت نے فلسطینیوں کے خلاف، مصریوں، لبنانیوں، شامیوں اور خطے کی دیگر اقوام کے ساتھ ظلم روا رکھا ہے، اس پر خاموشی اختیار کی جائے۔ حال ہی میں جب شام پر باغی اور دہشت گرد گروہوں نے حملہ کیا اور قابض ہوئے تو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے شام پر حملوں کا آغاز کر دیا، لیکن مسلمانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہے، کیونکہ یہ مسلمان صیہونی ہیں، جن کا بنیادی مقصد ہی اسرائیل کی صیہونیت کا تحفظ اور بقاء ہے۔ تاہم اس وقت دنیا میں تین قسم کی صیہونیت کا وجود پایا جاتا ہے، جس میں بنیادی صیہونیت یہودی صیہونیت ہے اور پھر اس کے بعد عیسائی صیہونیت، جو ہمیں عیسائی ممالک کی حکومتوں میں نظر آرہی ہے اور اب مسلمان صیہونیت بھی جنم لے چکی ہے، جو مسلمان ممالک کی حکومتوں سمیت عوام میں بھی سرائیت کر رہی ہے۔ یہ مسلمان صیہونی یہودی صیہونیوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت رہے ہیں۔