تحریر: سید اسد عباس
امریکی صدر نے ایک ایگزیگٹو آرڈر کے تحت پاکستان نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس، جو پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کا ذمہ دار ہے، اس پر پابندی عائد کر دی ہے۔ وزارت خارجہ امریکا کے بیان میں کہا گیا کہ اس ادارے نے پاکستان کے لانگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے مواد کے حصول کے لیے کام کیا ہے۔ ایسا ہی الزام ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل، اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ اور اورک سائیڈ انٹرپرائزز پر بھی عائد کیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق متذکرہ چاروں پاکستانی اداروں کے خلاف ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے ایک ماہ قبل پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے کے اقدامات کے الزام میں کارروائی کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی جانب سے بجا طور پر اس امریکی اقدام پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ ترجمان دفترِ خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے اس حوالے سے اپنے جاری کردہ بیان میں پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکہ کی مزید پابندیوں کو متعصبانہ اور دہرے معیار کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اس سے خطے میں فوجی عدم توازن بڑھے گا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیت خود مختاری کے دفاع اور جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کے لیے ہے اور پاکستان کے میزائل پروگرام پر ملک کے 24 کروڑ عوام کا مقدس بھروسہ ہے۔ ہمیں پاکستان کے نجی تجارتی اداروں پر امریکی پابندیاں عائد کرنے پر بھی افسوس ہے۔ ماضی میں تجارتی اداروں کی اسی طرح کی فہرستیں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات کی بنیاد پر تیار کی گئیں جبکہ پاکستان ایٹمی عدم پھیلاؤ کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ ایسے دہرے معیارات اور امتیازی اقدامات ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی کوششوں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے اور عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈالیں گے۔ پاکستان نے اس پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا کہ ماضی میں دوسرے ممالک کو جدید فوجی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے لائسنس کی شرط بھی ختم کر دی گئی، جبکہ اب پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر مزید پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ٹیکنالوجی سے متعلق اداروں پر ایگزیکٹو آرڈر 13382 کے تحت اضافی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ یہ پابندیاں ایسے افراد یا اداروں پر لگائی جاتی ہیں، جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ترسیل کے ذرائع اور ان ہتھیاروں کے حصول، ان کی ملکیت، ترقی، منتقلی یا ان کے استعمال میں ملوث ہوں یا اس کے لیے معاونت کریں۔ امریکی دفتر خارجہ کے بقول امریکہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور اس سے منسلک تشویشناک سرگرمیوں کے خلاف اقدامات جاری رکھے گا۔
پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع سے امریکا اور اس کے حواریوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ 1981ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب پاکستان ایٹمی صلاحیت سے سرفراز ہوچکا تھا، اسرائیل نے امریکی آشیرباد کے تحت پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملے کی کوشش کی، جو بروقت اطلاع ملنے پر پاک فضائیہ کے چاک و چوبند دستے نے ناکام بنائی۔ اسی طرح بھارت نے جب 2 مئی 1998ء کو دوبارہ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کیا تو امریکی زبانیں گنگ رہیں اور بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی، مگر جب پاکستان نے 28 مئی 1998ء کو پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکہ نے پاکستان پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کرانے میں ذرہ بھر دیر نہ لگائی، جو اس کی کھلی منافقت اور دہری پالیسیوں کا ٹھوس ثبوت ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ میں امریکہ سرفہرست ہے، جو اپنے ہی لاگو کیے ہوئے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدوں کی پاسداری نہیں کرتا۔ اپنے ہتھیار فروخت کرنے کے لیے امریکہ مختلف ممالک کے مابین جنگ کی سازشیں کرتا اور راستے نکالتا ہے اور پھر ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ممالک کو ہتھیار فراہم کرکے جنگ کی آگ بھڑکاتا ہے۔ یوکرائن اور روس کے مابین جاری جنگ اور غزہ میں غاصب اسرائیل کی بربریت اس کا تازہ ثبوت ہے، کیونکہ ان دونوں جنگی محاذوں پر اسرائیل اور یوکرائن کو مکمل امریکی سرپرستی حاصل ہے اور وہ مظلوم فلسطینیوں اور روس کے خلاف امریکی ساختہ ہتھیار ہی بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ اسی طرح امریکہ ایک معاہدے کے تحت بھارت کو بھی نہ صرف ایٹمی ہتھیار فراہم کر رہا ہے بلکہ ان ہتھیاروں کی تیاری میں بھی بھارت کی معاونت کر رہا ہے، جس سے اس پورے خطے کے امن و سلامتی پر سنگین خطرے کی تلوار مسلسل لٹکی ہوئی ہے۔
یہ سب سچائیاں، وزارت خارجہ پاکستان کی تشویش، امریکی منافقت اور دہرے معیارات، اسرائیل دشمنی، بھارتی مخالفت سب اپنی جگہ، تاہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان یہ سب سچ بولنے اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی کیفیت و حیثیت میں ہے۔؟ ہم اپنے ملک کی معیشت آئی ایم ایف کے قرضوں سے چلاتے ہیں، معاشرے کی حالت یہ ہے کہ عوام کا ملکی اداروں پر اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے، ملک کے دو صوبوں میں دہشت گردی عروج پر ہے، یہاں کا صاحب اقتدار عوام سے نہیں بلکہ کہیں اور سے طاقت حاصل کرتا ہے اور اقتدار میں رہنے کے لیے اسی طاقت کے تلوے چاٹتا ہے۔ اقتدار کی کرسی میں کہیں نہ کہیں امریکی تعاون اور مداخلت کا عمل دخل ہوتا ہے۔ امریکا اگر فون کال پر کہہ دے کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف، تو ہماری فوج کے جرنیل کو ساری رات نیند ہی نہیں آتی، وہ صبح کا انتظار کیے بغیر کہتا ہے کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ہم بھلا کیسے اپنے قیمتی اثاثوں کا تحفظ کرسکتے ہیں۔؟
مشرق وسطیٰ میں آنے والی حالیہ تبدیلی اس امر کا عندیہ دے رہی ہے کہ عالم انسانیت کا خونی شکاری اب نئی شکار گاہوں کا رخ کرے گا۔ یہ شکار گاہ بلوچستان ہوسکتی ہے۔؟ یہ شکار گاہ سی پیک کا راستہ ہوسکتی ہے۔؟ پاکستان کے لیے مستقبل قریب میں اپنے مفادات کا تحفظ آسان نہیں ہوگا۔ ہم بمشکل اپنے روزمرہ کے معاملات چلا رہے ہیں، ایسے میں اپنے قیمتی اثاثوں کی حفاظت یقیناً ایسا چیلنج ہے، جس کے بارے ہمارے صاحبان اقتدار کو غور و فکر کرنا چاہیئے۔ پاکستان کے نظریاتی اور مذہبی طبقات کو بھی بیدار رہنا چاہیئے، کیونکہ ایسے مطالبات اور اقدامات سامنے آسکتے ہیں، جو ہمارے معاشرتی اسٹرکچر کو ہی بدل کر رکھ دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کو کم سے کم ایسے مواقع مہیا کریں، جن سے استفادہ کرتے ہوئے وہ ہمیں غلط فیصلوں پر مجبور کریں۔ مواقع سے مراد کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ سیاسی بے چینی، بے انصافی، عسکریت پسندی، دہشت گردی، انسانی حقوق اور خارجہ تعلقات وغیرہ۔ ہمیں بیرونی دباؤ آنے سے قبل اپنے اندر موجود خامیوں کو دور کر لینا چاہیئے، اگرچہ اس کے امکانات کم ہیں۔