0
Friday 13 Dec 2024 09:13

سپریم کورٹ کے ذریعہ عبادتگاہوں کے خلاف نئے مقدمات پر پابندی قابل ستائش ہے، مولانا محمود مدنی

سپریم کورٹ کے ذریعہ عبادتگاہوں کے خلاف نئے مقدمات پر پابندی قابل ستائش ہے، مولانا محمود مدنی
اسلام ٹائمز۔ پلیسیز آف ورشپ ایکٹ 1991 سے متعلق جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی و دیگر کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے آج سپریم کورٹ نے ملک کے سبھی عدالتوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ جب تک کہ سپریم کورٹ کا اگلا حکم نہ آجائے، ملک میں کسی بھی عبادت گاہ (مسجد، مندر اور درگاہ) کے خلاف کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔ اس پر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ ہمارا مقصد اس ملک میں امن و امان کا تحفظ کرنا ہے، ہمیں ماضی میں جھانکنے سے زیادہ اس ملک کے مستقبل کی تعمیر اور اس تعمیر میں سبھی طبقوں کی یکساں نمائندگی پر توجہ مرکوز کرنا چاہیئے۔ مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ مسجد و مندر تلاش کرنے والے اس ملک کی یک جہتی اور اتحاد کے دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء ہند نے ہمیشہ فرقہ پرستی کی مخالفت کی ہے اور اس نے ان دروازوں کو بند کرنے کے لئے بھی ارباب اقتدار کو بارہا متوجہ کیا ہے، جن راستوں پر فرقہ پرستی کا ناگ پھن مارے کھڑا ہے۔ یہ جمعیت علماء ہند کی ہی کوشش تھی کہ 1991ء میں ایکٹ بنا اور انشاء اللہ ہماری کوشش سے یہ ایکٹ نافذ العمل بھی ہوگا۔

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے سماعت کرتے ہوئے کہا کہ زیر التوا مقدمات (جیسے گیان واپی مسجد، متھرا شاہی عیدگاہ، سنبھل جامع مسجد وغیرہ) میں کوئی بھی عدالت سروے کا حکم جاری نہیں کرے گی اور نہ ہی ایسا عبوری فیصلہ سنائے گی، جس سے عبادت گاہ کی نوعیت متاثر ہو۔ سپریم کورٹ کی ہدایت سے ان لوگوں کو شدید جھٹکا لگا ہے، جو ہر مسجد کے پیچھے مندر تلاش کر رہے تھے۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیوکھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی وشوناتھن پر مشتمل ایک خصوصی بنچ نے یہ حکم عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق پلیسز آف ورشپ (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کو چیلنج کرنے والی متعدد عرضیوں کی سماعت کے دوران دیا۔ جمعیت علماء ہند کی طرف سے عدالت میں ایڈووکیٹ دشینت دوے اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ منصور علی خان اور ایڈووکیٹ نیاز احمد فاروقی موجود تھے۔ جمعیت کے وکیل دشینت داوے نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ سبھی جاری مقدمات کو کالعدم کیا جائے، بنچ کو مطلع کیا گیا کہ اس وقت ملک میں 10 مساجد و درگاہوں کے خلاف 18 مقدمات زیر التوا ہیں، تاہم عدالت نے پہلے سے زیر التوا مقدمات کی سماعت کو معطل کرنے سے انکار کردیا۔

آج کی سماعت میں جمعیت علماء ہند کی جانب سے بھی ایک رٹ پٹیشن درج کی گئی، جس میں 1991ء کے ایکٹ کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کئی سیاسی جماعتوں نے اس قانون کے تحفظ کے لئے مداخلتی درخواستیں دائر کی ہیں، جن میں سی پی آئی (ایم)، انڈین یونین مسلم لیگ، ڈی ایم کے، آر جے ڈی ایم پی منوج جھا اور این سی پی (شرد پوار) کے ایم پی جتیندر اوہاڈ شامل ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یونین حکومت نے عدالت کی جانب سے دی گئی کئی توسیعات کے باوجود اب تک اپنا جواب داخل نہیں کیا ہے۔ یہ قانون اس وقت عوامی بحث کا موضوع بن گیا، جب اترپردیش کی سنبھل جامع مسجد کے سروے کے بعد پولس تشدد کے واقعات پیش آئے۔ اس کے بعد اس معاملے پر عوامی حلقوں میں شدید بحث و مباحثہ ہوا اور عدالت نے اس معاملے میں سخت ہدایات جاری کیں۔
خبر کا کوڈ : 1178046
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش