رپورٹ: سید عدیل زیدی
وطن عزیز پاکستان میں دہشتگردی کا سلسلہ لگ بھگ دو دہائیوں سے جاری ہے، اس میں 2015ء کے بعد سے کسی حد تک کمی تو ضرور آئی، تاہم مکمل طور پر اس ناسور کا خاتمہ ابھی تک نہیں ہوسکا۔ دہشتگردی کا یہ اژدھا ہزاروں قیمتی انسانی جانیں نگل چکا ہے، رواں سال بھی پاکستان میں دہشتگردی نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا ہے اور ایک سال کے دوران ایک ہزار کے قریب پاکستانی اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اسلام ٹائمز کو موصول ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق ملک میں گذشتہ 10 ماہ کے دوران ایک ہزار 566 واقعات رپورٹ ہوئے اور 573 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 924 افراد شہید ہوئے جبکہ انٹیلیجنس آپریشن میں 341 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔
اسلام ٹائمز کو دہشتگردی کے ان واقعات اور جانی و مالی نقصانات کی رپورٹ موصول ہوئی ہے اور اس دوران دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث 800 اور دہشتگردوں کی مالی معاونت پر 2 ہزار 466 افراد کو گرفتار کیا گیا اور 526 مجرمان کو سی ایف ٹی کے تحت سزا دی گئی۔
اسلام ٹائمز کو موصول ہونے والی دستاویز کے مطابق رواں سال یعنی 2024ء کے دوران ملک میں دہشتگردی کے 1566 واقعات میں 924 سے زائد افراد شہید، دو ہزار 121 زخمی اور انٹیلیجینس کی بنیاد پر 12 ہزار 801 کارروائیوں میں 341 دہشت گرد ہلاک کیے گئے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں میں 573 سکیورٹی اہلکار شہید اور ایک ہزار 353 زخمی ہوئے، دہشت گردی کی کارروائیوں میں 351 عام شہری شہید اور 768 عام شہری زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ 948 واقعات خیبر پختونخوا، 582 بلوچستان، 24 سندھ، 10 پنجاب اور 2 اسلام آباد میں رونما ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے واقعات میں 583 افراد شہید اور 1375 زخمی ہوئے، جن میں 437 سکیورٹی اہلکار شہید اور 1059 زخمی ہوئے، 146 شہری شہید اور 316 زخمی ہوئے۔ بلوچستان میں دہشتگردوں کی کارروائیوں میں شہید ہونے والے 307 افراد میں 110 سکیورٹی اہلکاراور 197 شہری شامل ہیں۔
اسی طرح 644 زخمیوں میں 263 سکیورٹی اہلکار اور 381 شہری شامل ہیں، اگر صوبہ سندھ کی بات کی جائے تو یہاں دہشتگردی کی 24 کارروائیوں میں 17 افراد شہید اور 38 زخمی ہوئے، جن میں 13 سکیورٹی اہلکار شہید اور 11 زخمی ہوئے، 4 شہری شہید اور 27 زخمی ہوئے۔ پنجاب میں دہشتگردی کے 10 واقعات میں 16 افراد شہید اور 63 زخمی ہوئے، جن میں 13 سکیورٹی اہلکار شہید اور 19 زخمی ہوئے، 3 شہری شہید اور 44 زخمی ہوئے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دہشتگردی کے دو واقعات میں ایک شہری شہید اور ایک سکیورٹی اہلکار زخمی ہوا۔ موصول شدہ دستاویز کے مطابق وطن عزیز میں ریاست مخالف دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث 400 افراد کو پنجاب، 203 کو خیبر پختونخوا، 173 کو بلوچستان، 21 کو سندھ اور 3 افراد کو گلگت بلتستان سے گرفتار کرکے فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا۔
دہشتگرد تنظیموں کی مالی معاونت پر دو ہزار 466 افراد کو گرفتار کیا گیا اور 526 مجرمان کو سی ایف ٹی کے تحت سزا دی گئی، اسی طرح دہشتگردوں سے منسلک 58 کروڑ روپے کی رقم وصول ہوئی۔ اگر دیکھا جائے تو رواں سال صوبہ خیبر پختونخوا دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، بعض مبصرین کا خیال ہے کہ کے پی میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور وفاق میں نون لیگ کی حکومت کے مابین سیاسی محاذ آرائی کیوجہ سے بھی صوبہ میں دہشتگردی پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ جس کی ایک مثال صوبہ میں اعلیٰ پولیس افسران کی کمی ہے۔ ذرائع کے مطابق دہشتگردی سے شدید متاثرہ صوبہ خیبر پختونخوا کو پولیس افسران کی شدید کمی کا سامنا ہے، محکمہ پولیس کی جانب سے وفاقی حکومت کو 4 بار خط لکھنے کے باوجود افسران کی کمی کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ پولیس حکام کے مطابق خیبر پختونخوا پولیس کو گریڈ 19 کے پی ایس پی افسران کی 57 منظور شدہ پوسٹوں میں سے 22 افسران کی کمی کا سامنا ہے۔
گریڈ 18 کے پی ایس پی افسران کی منظور شدہ پوسٹوں کی تعداد 131 ہے، لیکن پولیس کو گریڈ 18 کے 14 پی ایس پی افسران کی کمی کا سامنا ہے۔ پولیس حکام کا بتانا ہے کہ صوبائی پولیس کو گریڈ 17 کے 7 پی ایس پی افسران کی کمی کا سامنا ہے جبکہ گریڈ 17 کے پی ایس پی افسران کی منظور شدہ پوسٹیں 15 ہیں۔ سیاسی اختلافات ایک جانب، تاہم دہشتگردی کے مسئلہ پر وفاق اور صوبوں کو ایک پیج پر آنا ہوگا، دہشتگردی کے تدارک کیلئے وفاقی حکومت کو خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کیساتھ مکمل طور پر تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سال کے دوران قبائلی ضلع کرم دہشتگردی سے بری طرح متاثر رہا ہے۔