اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں خواتین بدستور بھارتی ریاستی دہشت گردی، ناانصافی، ظلم و ستم اور تشدد کا شکار ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کشمیری خواتین کی حرمت اور وقار کو نشانہ بنانے کے لیے کالے قوانین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ خاص طور پر 5 اگست 2019ء کو بی جے پی حکومت کے غیر قانونی اقدامات کے بعد بھارتی فوج، پیراملٹری فورسز، پولیس اور ان کی ایجنسیوں نے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کھلے عام کشمیری خواتین کو نشانہ بنانے، ہراساں کرنے اور ان کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کرنے کے لئے قانون کی آڑ لی ہے جبکہ ان کے تمام سیاسی، سماجی، معاشی، انسانی اور دیگر حقوق کو سلب کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوجیوں نے 1989ء سے مقبوضہ علاقے میں 2353 خواتین کو شہید اور 11,265 کی بے حرمتی کی۔
بھارتی ریاستی دہشت گردی کی وجہ سے گزشتہ 36سال میں 22,980 کشمیری خواتین بیوہ ہوئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 65 سالہ آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، آسیہ بانو، آفرینہ، نگینہ، عشرت رسول، منیرہ بیگم، سروہ بیگم، شفیقہ بیگم، روبینہ نذیر، نصرت جان، شبروزہ بانو، مدیفہ اور شیما شفیع وازہ سمیت تین درجن سے زائد خواتین غیر قانونی طور پر بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر کی مختلف جیلوں میں سات سال سے زائد عرصے سے نظر بند ہیں۔ بھارتی فوجیوں نے 2024ء میں راجوری، پونچھ، سانبہ اور کٹھوعہ اضلاع میں من گھڑت مقدمات کی بنیاد پر گھروں پر چھاپوں کے دوران خانہ بدوش اقام دین اور طالب شاہ کی بیویوں سمیت کئی خواتین کو گرفتار کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کشمیریوں کی تذلیل کرنے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں عصمت دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری، شوپیان میں عصمت دری اور دہرے قتل اور کٹھوعہ میں عصمت دری اور قتل جیسے واقعات اس کی واضح مثالیں ہیں۔بھارتی فوجیوں نے 23 فروری 1991ء کی رات کو ضلع کپواڑہ کے علاقے کنن پوش پورہ میں محاصرے اور تلاشی کی ایک کارروائی کے دوران تقریبا 100 خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی۔ 29 مئی 2009ء کو شوپیان میں دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کو اغوا کے بعد عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں قتل کر دیا گیا۔جنوری 2018ء میں جموں کے علاقے کٹھوعہ میں بھارتی پولیس اہلکاروں اور دائیں بازو کی تنظیموں سے وابستہ فرقہ پرست ہندوئوں نے ایک 8 سالہ مسلمان بچی آصفہ بانو کو بار بار اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا اور بعد میں قتل کر دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیری خواتین کو اپنے پیاروں کے قتل، گرفتاریوں اور جبری گمشدگیوں کے ذریعے ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں پر زور دیا گیا کہ وہ مداخلت کریں اور بھارت کو کشمیری خواتین کے خلاف گھنائونے جرائم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے باز رکھیں۔ دریں اثناء کل جماعتی حریت کانفرنس کے رہنمائوں زمرودہ حبیب، یاسمین راجہ اور فریدہ بہن جی نے اپنے الگ الگ بیانات میں عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی، ناانصافیوں اور خواتین کے خلاف مظالم کو روکنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔