تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ٹرمپ کی مستقبل کی کابینہ کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ اس کابینہ کے حوالے سے جو سب سے منفرد نام تھا، وہ ایلون ماسک کا نام تھا۔ نئی ٹرمپ انتظامیہ کی اہم شخصیات کے بارے میں حیرت ناک قیاس آرائیوں کے درمیان ٹرمپ کے حلقے میں ایک شخص کے بااثر اور حتیٰ کلیدی کردار کی تصدیق مختلف اطراف سے ہونے لگی اور یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ مشہور ارب پتی امریکی کاروباری شخصیت یعنی Tesla ،SpaceX اور X انٹرنیٹ پلیٹ فارم کا مالک ایلون ماسک ہے۔ امریکی انتخابات میں صاحب ثروت شخصیات، مشہور اور مقبول میڈیا شخصیات کو استعمال کرنے کی روش عام ہے۔ ایلون مسک بھی ان شخصیات میں سے ایک تھے، جنہوں نے اہم مالی تعاون کے علاوہ، ریپبلکن مہم میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ٹرمپ نے ان کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں "جینئس" "اور "سپرسٹار" جیسے القاب سے نوازا۔
مسک، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حالیہ انتخابات سے قبل انہوں نے کبھی کسی امریکی صدارتی امیدوار کی حمایت نہیں کی، لیکن حالیہ امریکی انتخابات میں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اندرونی اور انتہائی قریبی حلقے میں ایک حقیقت بن کر سامنے آئے ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد ٹرمپ کی سالگرہ کی تقریب میں مسک کی نمایاں موجودگی میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس کی اہم خبروں میں سے ایک تھی۔ اس خبر نے مستقبل کی ٹرمپ انتظامیہ میں ایلون مسک کی اہم پوزیشن کے بارے میں بحث کو زبان زدہ خاص و عام کر دیا۔ یہ قیاس آرائیاں حقیقت میں بدلنے میں زیادہ دیر نہیں لگی اور ٹرمپ نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ انہوں نے ایلون مسک کو اس نئے عہدے کے لیے منتخب کیا ہے، جسے حکومت کی کارکردگی کے جائزے کا محکمہ کہا جائے گا۔
سوشل نیٹ ورک "ٹروتھ سوشل" پر ایک بیان میں ٹرمپ نے اس نئے محکمے کے اہم اہداف کو "سرکاری بیوروکریسی کو ختم کرنا، بے کار ضوابط کو کم کرنا، فضول اخراجات کو کم کرنا اور وفاقی ایجنسیوں کی تنظیم نو کرنا" قرار دیا ہے۔ ٹرمپ نے محکمے کی اہمیت کا موازنہ "مین ہٹن پروجیکٹ" سے کیا، جس کی وجہ سے 20ویں صدی میں پہلا ایٹم بم تیار ہوا تھا۔ ٹرمپ نے بیان میں مزید کہا کہ محکمہ کا کام 6.5 ٹریلین ڈالر کے سالانہ وفاقی بجٹ میں کرپشن اور فراڈ کو کم سے کم سطح پر لانا ہے۔ ٹرمپ نے بیان میں کہا کہ یہ محکمہ 4 جولائی 2026ء تک کام کرے گا اور امریکہ کی اعلانِ آزادی کی 250 ویں سالگرہ کے موقع پر اپنا کام ختم کر دے گا۔ یہ ادارہ یا نئی آرگنائزیشن وفاقی حکومت کا باضابطہ حصہ نہیں ہوگی، بلکہ ایک مشاورتی بازو کی طرح ہوگی، جو حکومت کو باہر سے مشورے اور رہنمائی دے گی۔ تاہم، ایسی تنظیم کے سربراہ ہونے کی وجہ سے ایلون مسک کو تمام وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے میں ایک اہم مانیٹرنگ پوزیشن حاصل ہوجائیگی ہے۔
انتظامیہ سے محکمہ کی علیحدگی کے باوجود، اس کے افسران کو ٹرمپ کی حمایت حاصل ہوگی اور وہ وفاقی اخراجات میں کمی کے لیے متعدد داخلی تبدیلیوں کیلئے تجاویز دے سکیں گے۔ مسک نے حال ہی میں ایک گفتگو میں کہا ہے کہ ہمارا دفاعی بجٹ بہت بڑا ہے۔ یہ ایک ٹریلین ڈالر ہے۔ حکومتی قرضوں پر جو سود ہم ادا کرتے ہیں، وہ اب دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ یہ پائیدار نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھنے کے لئے ایک وزارت کی ضرورت ہے۔ اس ذمہ داری کو نبھانے میں مسک اکیلے نہیں ہونگے بلکہ پارٹی کے اندرونی انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے سابق امیدوار اور ٹرمپ کے سابق حریف وویک رامسوامی (جو ایک کاروباری اور دوا ساز کمپنی ریویونٹ سائنسز کے مالک ہیں) ان کی مدد کریں گے۔ رامسوامی نے ٹرمپ کے خلاف ریپبلکن کے پرائمری انتخابات میں حصہ لیا تھا، لیکن گذشتہ جنوری میں اس دوڑ سے دستبردار ہوگئے تھے اور ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
نیویارک ٹائمز نے اطلاع دی ہے کہ رامسوامی نے پہلے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اخراجات کم کرنے کے لیے محکمہ تعلیم، ایف بی آئی اور انٹرنل ریونیو سروس (وفاقی ٹیکس جمع کرنے کی ذمہ دار) کے بعض شعبوں کو ختم کرنے کا آئیڈیا پیش کیا ہے۔ رامسوامی نے کہا ہے کہ وفاق کی افرادی قوت میں 75 فیصد کمی کی جانی چاہیئے۔ امریکی انتخابات میں، جیسا کہ اس ملک کے سیاسی منظر نامے میں، پیسے اور میڈیا کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، ہر صدارتی امیدوار زیادہ سے زیادہ مالی مدد حاصل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ البتہ امریکی ارب پتیوں نے کبھی بھی مقابلوں میں اتنی واضح اور جرات مندانہ موجودگی کا مظاہرہ نہیں کیا، جتنا حالیہ انتخابات میں سامنے آیا ہے۔ اس لیے یہ امکان ہے کہ ٹرمپ نے ایلون مسک کو ان کی نمایاں مالی مدد کے اعتراف میں اپنی حکومت میں ایک نیا عہدہ دیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ مسک نے تقریباً 200 ملین ڈالر انتخابی مہم میں ٹرمپ کو عطیہ کے طور پر دیا ہے۔
دوسری طرف امریکی میڈیا پہلے ہی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر مسک کی موجودگی کے اثرات اور اس کی اقتصادی سلطنت کو مضبوط بنانے میں اس کے فائدے کے بارے میں شور شرابا کر رہا ہے، جس میں بلومبرگ کے اندازے کے مطابق 300 بلین ڈالر سے زیادہ کی افسانوی دولت بھی شامل ہے۔ ٹرمپ کے جیتنے کے بعد، ٹیسلا کے اسٹاک میں 40 فیصد اضافہ ہوا، جس سے مسک کو اربوں ڈالر کا منافع ہوا۔ اس کے علاوہ ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی، جس کا اعلان ٹرمپ نے DOGE کے مخفف کے نام سے کیا تھا، اس کا Dogecoin ڈیجیٹل کرنسی سے قریبی تعلق ہے، جسے مسک نے کئی برسوں پہلے فروغ دیا تھا۔ اب اس کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ ٹرمپ مسک گٹھ جوڑ سے یہ کرنسی فوکس ویگن یا فورڈ جیسی بڑی کمپنیوں کو پیچھے چھوڑ کر راتوں رات چھٹی سب سے بڑی ڈیجیٹل کرنسی بن جائے گی۔
بہرحال ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ پر مسک کے سیاسی خیالات کا اثر ان کے معاشی افکار کی طرح موثر ہوگا یا نہیں۔ کیا وہ اقتصادی پالیسیوں کی طرح سیاسی پالیسیوں میں بھی مسک کو اپنا پیرو مرشد مانیں گے یا نہیں۔؟ کیا وہ یوکرین، غزہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں امریکہ کی مداخلت پسندانہ اور جنگی کارروائیوں کے تناظر میں ٹرمپ کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا مشورہ دیں گے یا نہیں۔؟ امریکی خارجہ پالیسی کے مختلف ایشوز پر مسک کے سیاسی نظریات کے اثرورسوخ کا ابھی تک کوئی اثر یا ثبوت نہیں ہے، لیکن کچھ اہم مسائل جیسے کہ یوکرین میں جنگ کے حوالے سے وہ نہ صرف امریکہ کی طرف سے یوکرین کو دیئے گئے 35 بلین ڈالر کے اسلحہ جاتی امدادی پیکج کے مخالف تھے بلکہ مسک نے یہاں تک کہا تھا کہ یوکرائنی امریکی فراہم کردہ ہتھیار بلیک مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں۔
حال ہی میں امریکی میڈیا نے اعلان کیا ہے کہ مسک نے ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان فون کال میں شرکت کی اور یوکرین میں جنگ کے جلد خاتمے کا اعلان کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسک اقتصادی معاملات کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی ٹرمپ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ سابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ایلون مسک جیسے ٹیک ارب پتیوں کے اثر و رسوخ کو ایک ''بڑی تشویش‘‘ قرار دیا ہے۔ اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب کے اجراء سے قبل نیوز میگزین ڈئیر اشپیگل کے ساتھ ایک انٹرویو میں میرکل نے کہا کہ سیاست کا ایک اہم اور حتمی فریضہ عام اور طاقتور شہریوں کے مفادات میں توازن پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا، ''اگر یہ توازن کمپنیوں کے سرمایے کی طاقت یا تکنیکی صلاحیتوں کے ذریعے بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے تو یہ ہم سب کے لیے ایک بے مثال چیلنج ہے۔‘‘
انہوں نے ٹیسلا اور اسپیس ایکس کے چیف ایگزیکٹیو ایلون مسک کی مثال دی، جنہیں ٹرمپ نے حکومتی کارکردگی کے نئے محکمے کے شریک سربراہ کے طور پر منتخب کیا ہے۔ ٹرمپ نے یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ مسک حکومتی حدود سے باہر رہ کر کام کریں گے۔ میرکل نے کہا، ''اگر ان جیسا کوئی شخص خلا میں گردش کرنے والے تمام سیٹلائٹس کے 60 فیصد کا مالک ہے، تو یہ ہمارے لیے سیاسی مسائل کے علاوہ ایک بہت بڑی تشویش کا باعث ہوگا۔‘‘ اسپیس ایکس سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنی اسٹار لنک کی مالک ہے، جس کے زیر انتظام خلا میں 6,000 سے زیادہ سیٹلائٹس موجود ہیں اور اس کے صارفین میں نجی کمپنیاں اور سرکاری ایجنسیاں بھی شامل ہیں۔ میرکل کی یادداشتوں پر مبنی کتاب، ''آزادی: یادیں 1954-2021‘‘ کے عنوان سے ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب سے پہلے لکھی گئی۔
یہ کتاب 26 نومبر کو 30 سے زائد ممالک میں شائع کی جائے گی۔ میرکل نے اشپیگل کو بتایا کہ ٹرمپ کی جیت نے انہیں غم سے بھر دیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے، ''اگر کوئی سیاست میں سب کے لیے جیت کے حالات کا حامی نہیں اور صرف جیتنے والوں اور ہارنے والوں میں ہی فرق کرتا ہے، تو یہ کثیرالجہتی کے قیام کے لیے بہت مشکل کام ہے۔‘‘ سابق جرمن چانسلر کی یہ کتاب دسمبر کے دوران امریکہ میں ایک ایسی تقریب میں لانچ کی جائے گی، جہاں میرکل کے ہمراہ سابق امریکی صدر باراک اوباما بھی شریک ہوں گے۔