0
Monday 25 Nov 2024 22:29

بے گناہ معصوموں کا مقتل۔۔۔۔۔ پارہ چنار، کرم ایجنسی

بے گناہ معصوموں کا مقتل۔۔۔۔۔ پارہ چنار، کرم ایجنسی
تحریر: سیّد اقبال حیدر

 پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی شمال مغربی سرحد، کرم ایجنسی پاراچنار سے پشاور جاتے ہوئے، گاڑیوں میں سوار مسافروں کو تین مختلف مقامات پر گھات لگا کر تکفیری دہشت گردوں، تحریک طالبان پاکستان کے درندوں نے نشانہ بنایا، جس میں تازہ ترین اطلاع کے مطابق کانوائے پر حملے اور اس کے بعد ہنگاموں میں اب تک کے موجودہ واقعات میں دونوں طرف کل 112 افراد شہید ہوچکے ہیں اور بہت سے زخمی ہیں، جن میں خواتین اور 11 معصوم بچے، جنہیں گولیوں سے شہید کر دیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق ان میں ایک 6 ماہ کا شیرخوار بچہ بھی تھا، جس کے حلق میں گولی مار کر بچوں کے ان کی مائوں کے سامنے پیٹ چاک کرکے کربلا کے مظالم کی یاد تازہ کر دی۔ جائے حادثہ ’’بگن‘‘ اور قریبی آبادیوں میں گھر جلا دیئے گئے، فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوچکے ہیں۔ کرم ایجنسی میں خانہ جنگی کا عالم ہے، مگر صوبائی و مرکزی حکومتی ادارے بے نیاز ہیں۔

پارہ چنار کا پاکستان کے شہروں سے رابطے کا ذریعہ ایک واحد سڑک ہے، جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے۔ اسی سڑک سے لوگ پشاور اور ملک بھر میں دوسرے شہروں کا سفر کرتے ہیں، جس پر پچھلے کچھ برسوں سے افغانستان سے آکر TTP کے درندے جنہیں پاکستانی افواج کے نمائندے ڈی جی ISPR اور ملک کے وزیر داخلہ ’’خوارج‘‘ کا نام دے چکے ہیں، گھات لگائے شیعہ مسافروں کے منتظر رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی ان کا قتل عام اور ان کے مال و اسباب کی لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں۔ پارہ چنار کی تین سمیت افغانستان اور ایک سمت پاکستان سے ملتی ہے۔ یہ وہ قبائلی علاقہ ہے، جو افغانستان کے دارالحکومت کابل سے نسبتاً قریب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ان 4 صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے، جن میں انتہا پسند تکفیری طالبان قابض ہیں۔

پارہ چنار، ان کے لئے پاکستان آنے جانے کے لئے ’’گیٹ وے‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وحشی اسی راستے سے آکر پاکستان کے مختلف شہروں میں ظلم و بربریت کی وارداتیں کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔ ضلع کرم کے باسیوں میں زمینی اراضی کی آڑ میں مسلکی نفرت پھیلا کر انھوں نے وہاں اپنے سہولت کار بنا رکھے ہیں، جو انھیں اپنے گھروں میں پناہ دیتے ہیں۔ پارہ چنار کی شیعہ آبادی سے طالبان کی جنگ بہت پرانی ہے۔ 2007ء سے 2012ء کے درمیان پارہ چنار کے رہنے والوں نے القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کے خلاف مزاحمتی جنگ کامیابی سے لڑی اور اُنھیں ان علاقوں سے بھگایا۔ 2004ء میں القاعدہ اور تحریک طالبان نے افغانستان میں داخلے کے لئے پارہ چنار کے کچھ سرحدی دیہاتوں پر قبضے کی کوشش کی، تاکہ سرحد کے دونوں طرف کے علاقے پر ان کا قبضہ ہو، جسے یہاں آباد شیعہ آبادی نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ناکام کیا۔

پھر انہی مقامی افراد نے 2007ء میں اپنے محدود ذرائع کے ساتھ طالبان کے خلاف جنگ کی، جس کی وجہ سے تکفیری طالبان کے دلوں میں پارہ چنار کے شیعوں کے خلاف نفرت شدید سے شدید تر ہوتی گئی۔ نتیجے میں یہ درندے گاہے بہ گاہے ظلم و ستم کی مثالیں قائم کرتے رہے۔ اسکول کے امتحانی مرکز میں سرعام شیعہ اساتذہ کو باندھ کر انھیں زندہ جلانا، مسافروں کی گاڑیوں کو روک کر ان کے کاغذات چیک کرکے علی اور حسین نامی مسافروں کو گولیوں سے بھون ڈالنا، اسی علاقے کے سنی اکثریتی دیہات میں چھٹیوں کے روز ایک اسکول کے شیعہ استادوں کو سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں ذبح کرکے ان کے سر قلم کرنا۔ ان واقعات کو پارہ چنار کے مظلومین اعلیٰ حکام کے علم میں لاتے رہے، مگر حکومت نے TTP کی یہاں آمد و رفت پر افغان حکومت سے احتجاجی بیان کے علاوہ کچھ عملی اقدامات نہیں کئے۔

اسی واحد رابطے کی سڑک پر گاڑیوں کو روک کر ان میں شناخت کرکے شیعہ مسافروں کا بیہمانہ قتل عام ہوتا رہا۔ جس کا حل انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں نے صرف یہ نکالا کہ لوگ صرف مخصوص طے شدہ وقت پر گاڑیوں میں کانوائے کی شکل میں جایا کریں گے۔ کانوائے کے ساتھ ملیشیا فوج FC کے اہلکار حفاظت کے لئے موجود ہونگے۔ ان انتظامات کے لئے مسافروں کو پانچ چھ گھنٹے کی زحمت بھی ہوتی، مگر سکیورٹی اداروں کی ضمانت اور اپنی سلامتی کے لئے وہ اسے برداشت کرتے۔ حالیہ واقعہ بھی پاکستانی سکیورٹی فورسز کی نگرانی میں پارہ چنار سے 100 گاڑیاں پشاور اور واپس آتی ہوئی کل ملا کر 200 گاڑیوں، ویگنوں کے کانوائے پر لوئیر کرم کے علاقے مندوئی۔۔۔ اُچک کے مقام پر مسلح خوارج کا خونیں حملہ ہوا، جس میں زیادہ تر پارہ چنار سے تعلق رکھنے والے طوری بنگش قبائل کے شیعہ شہید ہوئے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ پارہ چنار، کرم کے دیہاتوں میں شیعہ سنی علاقوں میں عوام ایک دوسرے کا قتل عام کر رہے ہیں اور حکومت کہیں نظر نہیں آرہی۔ خیبر پختونخوا کے ’’وزیراعلیٰ‘‘ یوں تو مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے سرکاری مشینری اور جتھے لیکر پہنچ جاتے ہیں، مگر ان بے گناہ معصوم شہریوں کی خونریزی انھیں اپنے ہی صوبہ میں نظر نہیں آرہی۔ ملک کے وزیر داخلہ اور پاک افواج جو TTP کے درندوں کو ’’خوارج‘‘ تسلیم کرچکے ہیں، وہ ان خوارج کی سفاک درندگی اور معصوم پاکستانی نہتے مسافروں کا قتل عام نہیں روکنے سے بے بس ہیں۔ ملک کے ایک ریٹائیرڈ پولیس آئی جی سیّد ارشاد حسین کے ویڈیو بیان نے حکومتی اداروں پر اس خونی واقعات کی ذمہ داری سکیورٹی اداروں پر ڈالتے ہوئے وزیر داخلہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے، جو پریشان کُن ہے۔

راقم الحروف کی آج کرم ایجنسی سے منتخب ممبر قومی اسمبلی حمید حسین سے فون پر بات ہوئی۔ انھوں نے بھی ان واقعات کا ذمہ دار حکومتی اداروں کو ٹھہرایا ہے۔ ان کے مطابق یہ بات حیران کُن ہے کہ کانوائے کے آگے درمیان اور پیچھے سکیورٹی اداروں کی گاڑیوں اور اہلکاروں کو خراش تک نہیں آئی اور کانوائے میں46 بچے، خواتین، بوڑھے مسافر شہید ہوگئے۔ مجھے ملک کے صحافتی حلقوں اور سوشل میڈیا پر متحرک افراد، ملک میں انسانی حقوق کی تنظیموں سے شکائت ہے کہ انھوں نے اس بیہمانہ خونریزی پر خاموشی اختیار کی، مگر جنہیں واقعہ کربلا اور غزہ پر ظلم نظر نہیں آیا، انھیں پارا چنار کے مظلوم کہاں نظر آئیں گے۔ میں پاکستان کی سکیورٹی اداروں کے سربراہان سے درخواست کرتا ہوں کہ پارہ چنار میں مسلکی آڑ میں شیعہ کیمونٹی اور دو روز پہلے بلوچستان میں علاقائی بلوچ پنجابی۔۔ نفرت میں BLA کے ہاتھوں لگ بھگ 100 افراد کے بیہمانہ قتل پر بھی توجہ فرمائیں۔

وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی صاحب سے ملتمس ہوں کہ جس کامیابی اور پھرتی سے انھوں نے 9 مئی کے ہزاروں احتجاجیوں کو 24 گھنٹے میں سلاخوں کے پیچھے قید کر ڈالا تھا، اسی طرح ’’کرم‘‘ کے سانحے کے ذمہ دار TTP کے خوارج کو سزا دیں۔ 24 نومبر اسلام آباد اور لاہور میں کنٹینرز لگا کر راستے مسددود کرنے کی ہی حکمت عملی سے خوارج کی افغانستان سے پاراچنار کی آمدورفت کو بھی بند کریں۔ میں بلوچستان اور پارہ چنار کے شہدا کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے ان کے صبر اور حوصلے کے لئے پروردگار عالم کی بارگاہ میں دعا گو ہوں۔ (مضمون نویس جرمنی میں مقیم معروف شاعر، صحافی و لکھاری ہیں، جن کے کالمز معروف قومی اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں)
خبر کا کوڈ : 1174820
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش