اسلام ٹائمز۔ آج تہران میں نماز جمعہ کی امامت رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت الله العظمیٰ "سید علی خامنه ای" نے انجام دی۔ اس شرعی وظیفے کی ادائیگی کے پہلے حصے میں دو خطبے پڑھے جاتے ہیں۔ جس کے ابتدائی حصے میں رہبر انقلاب نے کہا کہ میں اپنے بھائیوں، بہنوں، عزیزوں اور خود کو تقویٰ الہی اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ نصیحت کرتا ہوں کہ حدود خدا کا پاس رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآنی آیات کی تشریحات میں مومنین کی باہمی یکجہتی کا ذکر آتا ہے اور یہ یکجہتی ایک مومن کا دوسرے مومن پر حق کہلاتی ہے۔ اگر ہم سب مسلمان ایک ہو جائیں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں تو خداوند متعال کی مدد شامل ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کی بھی یہی حکمت عملی ہے کہ ہم سب مسلمان آپس میں ایک ہوں۔ یہی اتفاق، خدا کی مدد و نصرت سے دشمن پر غلبہ پانے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دشمن یعنی مستکبرین اور جارحین تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے پر گامزن ہیں۔ تفرقہ، دشمن کا ہتھیار ہے۔ انہوں نے اسی ہتھیار کو مسلمان ملکوں میں استعمال کیا اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ لیکن اب قومیں بیدار ہو رہی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج وہ دن ہے جب امت مسلمہ اسلام دشمنوں کے اس حیلے سے جان چھڑا سکتی ہیں۔
آیت الله العظمیٰ سید علی خامنه ای نے کہا کہ ایرانی عوام کا دشمن وہی ہے جو فلسطینی عوام کا دشمن ہے، جو لبنان کا دشمن ہے جو عراق، مصر، شام اور یمن کا دشمن ہے۔ دشمن ایک ہی ہے مگر مختلف ملکوں میں اس کا طریقہ واردات مختلف ہے۔ ایک جگہ نفسیاتی جنگ کا حربہ آزماتا ہے تو دوسری جگہ اقتصادی دباو بڑھاتا ہے۔ اگر کسی جگہ ٹنوں وزنی بم گراتا ہے تو دوسری جگہ اپنی شریر منافقانہ مسکراہٹ سے کام دکھاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک آپریشن روم ہے جہاں سے یہ رہنمائی لیتا ہے۔ جہاں سے اسے مسلم آبادیوں اور اقوام پر حملوں کا حکم ملتا ہے۔ رہبر انقلاب نے مزید کہا کہ اگر کسی ملک میں دشمن کی مذکورہ بالا چالیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو وہ اس کے بعد دوسرے ملک کا رُخ کرتا ہے۔ اسے ایسا نہیں کرنے دینا چاہئے۔ ہر قوم جو دشمن کے مفلوج محاصرے سے بچنا چاہتی ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنی آنکھیں کُھلی رکھے اور بیدار رہے۔ جب ہم دیکھیں کہ دشمن ایک معاشرے کو تباہ کرنے کے بعد دوسرے کی جانب بڑھ رہا ہے تو ہمیں متاثرہ قوم کے ساتھ خود کو شریک سمجھنا چاہئے، اس مظلوم قوم کی مدد کرنی چاہئے اور اُن کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے تا کہ وہ دشمن کے چنگل سے نجات حاصل کر لیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ ہمیں افغانستان سے یمن، ایران سے غزہ و لبنان اور تمام اسلامی ممالک و اقوام تک اپنی دفاعی، آزادی و وقار کی پٹی کو مضبوط کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آج میری گفتگو کا یہ پہلا حصہ تھا جسے میں چاہتا تھا کہ بیان کروں۔ اس کے علاوہ میری زیادہ تر گفتگو لبنانی اور فلسطینی بھائیوں کے لئے ہے جو اس وقت مشکل میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے دفاعی احکام میں ہماری ذمے داریوں کا تعی٘ن کیا گیا ہے۔ ان وظائف کا تعی٘ن ہمارے اسلامی و بنیادی حتیٰ اُن بین الاقوامی قوانین نے بھی کیا ہے کہ جنہیں بنانے میں ہماری مذہبی تعلیمات کا کوئی اثر نہیں۔ لیکن یہی بین الاقوامی قوانین ہمارے مس٘لمات میں سے ہیں اور وہ یہ کہ ہر قوم کو اپنی سرزمین و مفادات کے دفاع کا قانونی حق حاصل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے گھروں، زمینوں، سرزمین اور جمع پونجی پر حملہ آور دشمن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اس وقت عالمی قوانین بھی اس بات کی تائید کر رہے ہیں کہ یہ محصور علاقہ فلسطینی عوام کا ہے۔ یہاں پر قابض کون ہیں؟۔ کہاں سے آئے ہیں؟۔ فلسطین کس کا ہے؟۔ فلسطینی عوام کون ہے؟۔ ملت فلسطین کو حق ہے کہ وہ ان سب کے خلاف کھڑے ہو۔
کوئی بھی ادارہ، کوئی مرکز، کوئی بین الاقوامی تنظیم فلسطینیوں پر اعتراض نہیں کر سکتی کہ وہ کیوں صیہونی رژیم کے سامنے سینہ سپر کئے ہوئے ہیں۔ وہ افراد جو فلسطینوں کی مدد کر رہے ہیں وہ اپنا وظیفہ انجام دے رہے ہیں۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کی اساس پر کسی شخص کو حق حاصل نہیں کہ وہ ملت لبنان اور حزب الله پر اعتراض کرے کہ وه کیوں غزہ و فلسطین کی حمایت کر رہے ہیں۔ وہ اپنی ذمے داری نبھا رہے ہیں۔ یہی اسلام کا حکم ہے یہی عقل کا اور یہی عالمی و بین الاقوامی قوانین کی منطق بھی۔ فلسطینی اپنی سرزمین کا دفاع کر رہے ہیں۔ اُن کا یہ دفاع قانونی ہے۔ اُن کی مدد کرنا قانونی ہے۔ اسی بِنا پر گزشتہ سال انجام پانے والا آپریشن طوفان الاقصیٰ بین الاقوامی قوانین کی رو سے عین منطقی ہے۔ فلسطینیوں کا یہ عمل بالکل جائز ہے۔ فلسطینی عوام کے لئے لبنانیوں کی مخلصانہ حمایت اسی حکم کی وجہ سے ہے۔ یہ حمایت قانونی بھی ہے اور معقول بھی، منطقی بھی ہے اور عقلی بھی۔ کسی کو حق نہیں کہ وہ اس قانونی دفاع کے حق پر اعتراض کرے اور کہے کہ آپ کیوں اس کام میں گھس گئے ہیں۔ دو تین شب قبل ہماری مسلح افواج کا شاندار عمل قانونی بھی تھا اور جائز بھی۔
عربی زبان میں دئیے گئے خطبہ جمعہ میں رہبر معظم انقلاب نے کہا کہ اس مرحلے میں، میں عالم اسلام خصوصی طور پر فلسطین و لبنان کی عزیز قوم کو مخاطب کر رہا ہوں۔ ہم سب سید حسن نصر اللہ کی شہادت پر سوگرار ہیں۔ اس عظیم فقدان نے ہمیں عزادار کر دیا۔ تاہم ہمارے غمگین ہونے کا مطلب نا امیدی نہیں ہے۔ بلکہ یہ عزاداری ایک طرح سے سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے لئے ہے جو ہمارے لئے امید افزاء اور درس آمیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ مادی طور پر سید حسن نصر الله ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی روح ہمارے ساتھ ہے اور رہے گی۔ وہ ستمگروں کے سامنے مقاومت کا بلند پرچم تھے۔ وہ مظلومین کے لئے شجاع مدافع اور بلند آواز تھے۔ اُن کی مقبولیت اور اثر و رسوخ ایران و لبنان بلکہ عرب ممالک سے بڑھ چکا تھا۔ اُن کی شہادت کے بعد ان کی یہ مقبولیت مزید بڑھ چکی ہے۔ اُن کا لبنان کی وفادار عوام کے لئے اپنی مادی زندگی میں یہ عملی پیغام تھا کہ "امام موسی الصدر" رہ اور "سید عباس موسوی" رہ جیسی عظیم شخصیات کے داغ مفارقت کے باوجود ناامید اور مایوس نہ ہونا تھا۔ شہید کا پیغام تھا کہ جدوجہد ترک نہ کی جائے اور مزید کوشش کر کے اپنی توانائی بڑھائی جائے۔ دشمن کے مقابلے میں مضبوطی ایمان کے ساتھ مقاومت پر بھروسہ کریں۔
رہبر انقلاب نے کہا کہ دشمن، مقاومت کے انفراسٹرکچر کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ناپاک دشمن چون کہ "حزب الله"، "حماس"، "جہاد اسلامی" اور دیگر جہادی تنظیموں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا اس لئے بمباری، قتل و غارت گری اور نہتے شہریوں کو نقصان پہنچانا اپنی فتح سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عزیز سید نے اپنی زندگی کے 30 سال سخت ترین جدوجہد میں گزار دئیے۔ انہوں نے حزب الله بیج کو اپنے ہاتھوں سے پروان چڑھایا۔ سید حسن نصر الله کی حکمت عملی نے حزب الله کو مرحلہ وار، صبر اور منطقی طور پر ترقی دی۔ جس کے بعد حزب الله نے صیہونی دشمن کو مختلف اوقات میں اپنے وجود کے آثار دکھائے۔ حزب الله حقیقی طور پر شجرہ طیبہ ہے۔