تحریر: ساجد علی گوندل
sajidaligondal55@gmail.com
غیبت صغریٰ
1۔ اس کا مکمل دورانیہ تقریباً 70 سال پر مشتمل ہے، کیونکہ اس غیبت کا دورانیہ کم ہے، اس لیے اسے غیبتِ صغریٰ کہا گیا۔
2۔ غیبت صغریٰ میں امام علیہ السلام مکمل طور پر روپوش نہ تھے بلکہ آپ علیہ السلام کا رابطہ اپنے خصوصی نمائندوں کے ساتھ استوار تھا اور آپ علیہ السلام مسلسل ان کی راہنمائی فرماتے۔
3۔ اس دورانیے میں امام زمانہ علیہ السلام کے چار خصوصی نمائندے تھے اور ان چاروں کو یکے بعد دیگرے امام علیہ السلام کی تائید حاصل تھی اور یہ چاروں امام علیہ السلام کے نزدیک مورد اعتماد تھے۔
4۔ غیبت صغریٰ کے زمانے میں ممکن ہے کہ ان چار نمائندگان کے علاوہ بھی کچھ خاص افراد کو امام کی زیارت کا شرف حاصل رہا ہو، مگر اس دورانیے میں امام علیہ السلام کی طرف سے ان چار افراد کو خصوصی نمائندگی کا شرف حاصل رہا کہ جن کے اسماء بالترتیب مندرجہ ذیل ہیں:
عثمان بن سعید
محمد بن عثمان
حسین بن روح نوبختی
علی بن محمد سمری
لوگ ان کے ذریعے اپنے مسائل کو امام علیہ السلام تک پہنچاتے اور پھر انہی کے توسط سے امام علیہ السلام کا جواب لوگوں تک پہنچتا۔
5۔ غیبت صغریٰ کے بعد خصوصی و نامزد نیابت کا سلسلہ تمام ہوا، اس کے اختتام پر یعنی غیبت کبریٰ کے لیے امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اب میرا خصوصی طور پر کوئی نمایندہ نہیں، امام علیہ السلام نے کچھ صفات کا ذکر کیا اور فرمایا: "
فأما من كان من الفقهاء صائنا لنفسه، حافظا لدينه، مخالفا على هواه، مطيعا لأمر مولاه، فللعوام أن يقلدوه"، "ہاں جہاں تک تعلق ہے ان فقہاء کا کہ جو اپنے نفس کی محافظت کرتے ہیں، اپنے دین کے پابند ہیں، اپنی خواہشات پر کنٹرول رکھتے ہیں اور تمام معاملات میں اپنے امام و رہبر کے تابع ہیں، پس عوام کو چاہیئے کہ وہ ایسے افراد کی تقلید و پیروی کریں۔
اور فرمایا: "
وأما الحوادث الواقعة فارجعوا فيها إلى رواة حديثنا فإنهم حجتي عليكم وأنا حجة الله"، "
اور جہاں تک تعلق ہے پیش آنے والے نئے مسائل کا تو اس معاملے میں ہمارے حدیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہ ہماری طرف تم پر حجت ہیں۔" غیبت صغریٰ کے بعد کوئی بھی فرد امام علیہ السلام کا خصوصی نمائندہ نہیں، غیبت کبریٰ میں نیابت عمومی ہے۔ امام علیہ السلام کی خصوصی نمائندگی اور وکالت ایک اہم اور سنجیدہ عہدہ ہے، لہذا یہ صرف انہی افراد کے لیے موزوں و شائستہ ہے کہ جو محکم ایمان، وعدہ وفائی، رازداری، امانتداری اور تقویٰ و پرہیز گاری جیسی صفات کے حامل ہوں اور امام علیہ السلام کی طرف سے صادر شدہ بیانیے کو بعینہ انہی الفاظ کے ساتھ لوگوں تک پہنچائیں۔
منتخب نائبین کی ذمہ داریاں
1۔ امام علیہ السلام کے نام اور جگہ کو دوسروں سے مخفی رکھنا۔
2۔ مختلف شہروں میں شیعہ افراد کے ساتھ روابط اور اپنی طرف سے کچھ نمائندوں کا انتخاب کرنا کہ جو باقی افراد سے وجوہات شرعیہ اکٹھا کرکے ان خاص نائبین تک پہنچائیں۔
3۔ وجوہات شرعیہ کو امام تک پہنچانا۔
4۔ لوگوں کے فقہی و اعتقادی سوالوں کے جوابات دینا۔
5۔ وہ افراد کہ جنہوں نے خود سے امام علیہ السلام کا نمائندہ ہونے کا دعویٰ کیا ہو، ان کے جھوٹ کے کو آشکار کرنا۔
6۔ غالیوں کے باطل افکار کو رد کرنا۔
7۔ امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے متعلق پیدا ہونے والے شبہات کا جواب دینا۔
8۔ امام علیہ السلام سے مرتبط تمام سرگرمیوں کو مخفی طور پر انجام دینا۔
(تعارف نامہ) عثمان بن سعید
عثمان بن سعید کا تعلق اسدی قبیلے سے تھا، نیز انہیں سمان کے لقب سے بھی پکارا جاتا ہے، جس کے معنی روغن فروش کے ہیں۔ آپ اپنی سیاسی سرگرمیوں اور امام علیہ السلام کے ساتھ رابطے کو مخفی رکھنے کے لیے گھی کا کاروبار کرتے تھے۔ عثمان بن سعید امام علیہ السلام کی غیبت صغریٰ کے زمانے میں امام کے سب سے پہلے خاص نائب ہیں۔ عثمان بن سعید امام علی نقی علیہ السلام کے بااعتماد اصحاب میں سے تھے اور امام علی نقی علیہ السلام نے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر رکھا تھا۔ احمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ ایک دن میں امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور عرض کی کہ مولا میں ہر روز آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتا، لہذا میری رہنمائی فرمائیں کہ میں اپنے مسائل کس سے دریافت کروں۔؟ امام علیہ السلام نے فرمایا عثمان بن سعید کی طرف رجوع کرو، وہ ہمارے قابل اعتماد ہیں، وہ جو کہیں، وہ میری طرف سے ہے اور وہ جو دیں، وہ میری طرف سے ہے۔
امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بعد عثمان بن سعید کو امام حسن عسکری علیہ السلام کی وکالت کا شرف حاصل ہوا اور امام عسکری علیہ السلام نے عثمان بن سعید کو اپنا خصوصی نمائندہ بنایا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے باقی تمام وکلا اور نمائندوں سے وجوہات شرعی عثمان بن سعید تک پہنچائی جاتیں اور پھر عثمان بن سعید انہیں امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں پہنچاتے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام نے عثمان بن سعید کی نیابت کو یوں واضح کیا: امام عسکری علیہ السلام نے اپنے اصحاب میں سے 40 افراد کو ایک جگہ اکٹھا کرکے انہیں فرمایا کہ امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے زمانے میں تم لوگ عثمان بن سعید کی طرف رجوع کرو اور اس کی اطاعت کرو۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کی تجہیز و تکفین کا سارا کام بھی بظاہر عثمان بن سعید نے انجام دیا۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد عثمان بن سعید سامرا میں حکومتی کارندوں کی کڑی نگرانی اور دشمنوں کی فراوانی کی وجہ سے امام زمانہ علیہ السلام کے حکم پر سامرا سے بغداد چلے گئے اور کرخ نامی ایک شیعہ نشین علاقے میں سکونت اختیار کی۔ آپ کی تاریخ وفات کے بارے دقیقاً معلوم نہیں، البتہ اکثر علماءِ رجال نے آپ کی وفات کو 267 ہجری قمری لکھا ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام نے عثمان بن سعید کی وفات پر ان کے فرزند محمد بن عثمان کو تسلیت نامہ ارسال کیا اور پھر محمد بن عثمان کو اپنا دوسرا نائب مقرر فرمایا۔ امام زمانہ علیہ السلام کے پہلے خصوصی نائب عثمان بن سعید کا مرقد عراق کے شہر بغداد میں واقع ہے۔