تحریر: سید رضا میر طاہر
2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات کی گرما گرم انتخابی مہم اور پولنگ ڈے کے اختتام کے بعد صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے، جس کے مطابق ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ ایک بار پھر وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔امریکی صدارتی انتخابات میں الیکٹورل ووٹوں کی حتمی گنتی کے بعد ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ 277 الیکٹورل ووٹ لیکر 2024ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں باضابطہ طور پر کامیاب ہوگئے ہیں۔ ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس نے 224 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے۔ ٹرمپ سے اس بڑے مارجن کے ساتھ کملا ہیرس کی شکست کو غیر متوقع سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ گذشتہ چند مہینوں میں میڈیا اور سروے مراکز کی جانب سے کیے گئے متعدد پولز میں ہیرس ہمیشہ ٹرمپ سے آگے تھیں۔
یہ مسئلہ ان سات سوئنگ ریاستوں پر بھی لاگو ہوتا ہے، جنہیں صدارتی انتخابات سے چند روز قبل تک جنگ کا میدان کہا جا رہا تھا۔ ٹرمپ ان میں سے کئی ریاستوں میں ہیریس کو شکست دینے میں کامیاب رہے یا بہت کم مارجن سے ہارے ہیں۔ ماہرین کے ذہنوں پر جو سوال سب سے زیادہ چھایا ہوا ہے، وہ 2024ء کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی جیت کی وجوہات ہیں۔ شاید ان تمام عوامل کو ایک بنیادی عنصر کی شکل میں شامل کیا جا سکتا ہے اور وہ موجودہ صورتحال پر امریکی عوام کا وسیع پیمانے پر عدم اطمینان ہے۔ امریکی عوام نے اس امید پر ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے کہ شاید اس تبدیلی سے ان کی بری صورت حال بہتر صورت حال میں بدل جائے۔
ریپبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے ایکس میں امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ نتائج کسی معمے کی طرح نہیں ہیں، جب 70 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکہ غلط راستے پر گامزن ہے اور ڈیموکریٹک امیدوار اس نظام کی نائب صدر رہی ہیں تو وہ کس طرح ہیرس کو ووٹ دیتے۔ پچھلے چار سالوں نے امریکیوں کے لیے اتنی مصیبتیں پیدا کر دی ہیں کہ وہ اس سے نجات کے خواہاں ہیں۔ بائیڈن حکومت میں قیمتوں میں اضافے اور تنخواہوں میں جمود کی وجہ سے امریکی شہریوں کی زندگیاں دشوار سے دشوار تر ہو رہی تھیں۔ ان حالات میں (ڈیموکریٹس کے لیے) جیت کی توقع رکھنا کبھی بھی قابل قبول بات نہیں تھی۔
جس طرح 2020ء کے صدارتی انتخابات میں، امریکی عوام نے ٹرمپ کی خراب کارکردگی، متعدد سکینڈلز اور ان کے غیر معمولی رویئے پر عدم اطمینان کی وجہ سے ڈیموکریٹک امیدوار "جو بائیڈن" کو ووٹ دیا تھا، اس بار حالات کی بہتری کی امید پر انہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا ہے۔ چار سال خاص طور پر گذشتہ تین سالوں میں غیر معمولی مہنگائی، ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسائل، یوکرین جنگ اور بالخصوص غزہ جنگ کے بارے بائیڈن انتظامیہ کی پالیسی اور نقطہ نظر نے عدم اطمینان کو مزید بڑھاوا دیا۔ 50 فیصد سے زیادہ امریکیوں کی اکثریت اس نتیجے سے متفق ہے کہ ٹرمپ خاص طور پر معاشی صورتحال کو بہتر بنانے اور غیر قانونی تارکین سے نمٹنے کے حوالے سے موثر اقدام انجام دیں گے۔
انتخابات سے قبل کیے گئے پولز میں یہ بات سامنے آئی کہ امریکی عوام معیشت اور غیر قانونی تارکین وطن کے معاملے سے نمٹنے کے لیے ٹرمپ پر اور جمہوریت کے تحفظ اور یونیورسل ہیلتھ انشورنس کے شعبے میں ہیرس پر اعتماد کرتے ہیں۔ جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا، جس کی وجہ سے کملا ہیرس کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ وہ بائیڈن کی نائب تھیں۔ پچھلے چند سالوں میں، بائیڈن حکومت نے یوکرین کو دسیوں ارب ڈالر کی فوجی امداد اور ہتھیار فراہم کیے ہیں، جو کہ امریکہ کے ایک اہم دشمن، یعنی روس کے ساتھ جنگ میں ہے، جس کی ٹرمپ سمیت ریپبلکنز کی طرف سے بڑے پیمانے پر مخالفت کی گئی۔
اس کے علاوہ غزہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اس کو روکنے کی کوشش کی بجائے اسرائیل کو تقریباً 19 بلین ڈالر کی ہتھیاروں کی امداد فراہم کرکے بائیڈن حکومت اس جنگ میں شریک ہوکر فلسطینیوں کی نسل کشی کی براہ راست ذمہ دار ثابت ہوتی ہے۔ صیہونی حکومت۔ بائیڈن کے اس نقطہ نظر کو امریکہ میں نوجوانوں بالخصوص طلباء کی طرف سے بڑے پیمانے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بائیڈن حکومت کی اس پالیسی کے ردعمل میں فلسطینیوں کی حمایت کرنے والی طلباء تحریک بڑے پیمانے پر شروع ہوئی ہے۔
کملا ہیرس نے بائیڈن کی نائب کے طور پر غزہ جنگ کو روکنے اور جنگ بندی کے لیے کوئی سنجیدہ اور موثر کوشش کرنے کے بجائے اس حوالے سے محض چند سطحی اور غیر موثر بیانات دیئے ہیں، جبکہ دوسری طرف اسرائیل کی ہر طرح کی حمایت پر زور دیا ہے۔ ان داخلی اور خارجی عوامل کے مجموعے کی وجہ سے امریکی معاشرے کا ایک بڑا حصہ ڈیموکریٹس اور ان کی امیدوار کملا ہیرس سے مایوس ہوا اور 2024ء کے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف متوجہ ہوا۔ امریکی عوام نے اندرونی اور بیرونی معاملات میں بہتری کے لئے ٹرمپ سے امید باندھی ہے، دیکھیں یہ امیدیں کب تک برقرار رہتی ہیں۔