تحریر: امین الاسلام تہرانی
امریکہ کی تاریخ دنیا کے ہر ملک سے زیادہ خون بہانے کے عمل سے مملو ہے۔ یہاں پر مراد اس ملک کی ایک صدی سے زیادہ کی خونریزی بھرپور عالمی مداخلت نہیں ہے، بلکہ ان دنوں کی خونی تاریخ ہے جو اس معرض وجود میں آتے ہی اس ملک میں رقم ہوئی اور اس دوران جو کچھ مقامی امریکیوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ملک قائم ہی مقامی لوگوں کے قتل عام پر ہوا، 400 سال کی غلامی اس براعظم میں خونی تاریخ کے عوامل میں سے ایک ہے۔ "ناتانیل نٹ ٹرنر"، امریکہ کے سیاہ فام غلاموں کی پہلی بغاوت کا رہنما، 11 نومبر 1831 (یعنی 193 سال پہلے کے اسی دن) کو ساؤتھہمپٹن، ورجینیا میں پھانسی دی گئی، اس جرم میں کہ وہ امریکہ میں ایک انسان کی طرح جینا چاہتا تھا۔
وہ ورجینیا کے غلاموں میں سے ایک پڑھے لکھے سیاہ فام شخص تھے، جنہوں نے اسی سال 10 اگست کو غلامی کے خلاف بغاوت کی اور بہت جلد درجنوں سیاہ غلام ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ یہ گروہ اپنے آقاؤں کے ساتھ تصادم پر مجبور ہوئے اور 11 دنوں میں 56 کسان اور غلام مالکان کو قتل کر دیا۔ ٹرنر کا کہنا تھا کہ اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ سیاہ فام لوگوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروائیں اور اس مقصد کے لیے ہر جائز اقدام ضروری ہے! لیکن جیسے کہ امریکی طرز عمل سے واضح ہوتا ہے غصے میں آںے والے آقاؤں نے 2000 مسلح لوگوں کو متحرک کیا اور سرکاری طاقتوں کی مدد سے اس گروہ کے خلاف جنگ شروع کی۔
اس دوران ہر سیاہ فام شخص جس پر شک ہوا، اسے قتل کر دیا گیا اور خونریزی شروع ہو گئی۔ آخرکار سیاہ فاموں کی ناکام بغاوت کو بہت سے لوگوں کے قتل عام کے ساتھ دبا دیاگیا، لیکن نات ٹرنر آخری لمحے میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور اپنے زیرزمین رہتے ہوئے اپنے آقاؤں کے لیے ایک کتاب "ٹرنر کے اعترافات" لکھی۔ جسے اس کے ایک ساتھی نے محفوظ رکھا اور بعد میں اسے میری لینڈ میں شائع کیا گیا، اور یہ اب تک ایک دستاویز کے طور پر موجود ہے۔ اس تاریخی کتاب کے مواد سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یورپی لوگ اس سرزمین (امریکہ) پر آئے اور مقامی لوگوں کی آبائی زمینوں پر قبضے کی خاطر انہیں تباہ کر دیا۔
ان کے بقول پھر انہوں نے ان قبضہ شدہ زمینوں کو آباد کرنے اور ان کے تالابوں کو خشک کرنے کے لیے سیاہ فاموں کی زندگیوں کو برباد کیا۔ ٹرنر لکھتے ہیں کہ سیاہ فاموں کو افریقہ میں جانوروں کی طرح شکار کیا، یہاں یعنی امریکہ لائے، انہیں فروخت کیا اور پھر غلام بنا لیا۔ اس کے بعد سفید فام لوگوں نے گروہ در گروہ یورپ چھوڑا اور اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین کو چھوڑ کر پانیوں کے اس پار، یعنی امریکہ آئے اور جب انہیں مفت زمین اور بہت سے غلام ملے تو انہوں نے بغیر کسی شرم کے ہمارے ساتھ یعنی سیاہ فاموں کے ساتھ ایسا سلوک کیا اور.... میرے آقا نے میرا نام "نات" رکھا جو کہ پاگل کے معنی میں ہے اور میرا خاندانی نام دیگر سیاہ غلاموں کی طرح بھول گیا...
بہرحال، امریکہ میں غلامی ایک قانونی عمل تھا جو 17ویں سے 19ویں صدی کے درمیان ایک اہم اور منافع بخش تجارت سمجھی جاتی تھی۔ غلامی اس سے پہلے بھی برطانوی استعمار کے تحت کی جا رہی تھی۔ بعد میں بھی 13 کالونیوں میں (1776 میں آزادی کے اعلان کے وقت) غلامی باقاعدہ جاری رہی۔ خانہ جنگیوں کے بعد، غلامی کے خلاف رجحانات بتدریج بڑھنے لگے؛ لیکن جنوب میں، 1800 سے کپاس کی صنعت کی تیز ترقی کی وجہ سے، جنوبی ریاستیں غلاموں پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھیں اور انہوں نے اس ظالمانہ تجارت کو نئے مغربی علاقوں میں بھی پھیلانے کی کوشش کی۔ یہ ساری تفصیلات گزیٹرز میں موجود ہین۔
ناٹ ایک عرصے کے بعد گرفتار ہوئے اور انہین 11 نومبر 1831 کو پھانسی دے دی گئی۔ بالکل 177 سال بعد (10 نومبر 2008) باراک اوباما، ایک افریقی امریکی، اپنے بیوی کے ساتھ واشنگٹن کے وائٹ ہاؤس میں بطور صدر گئے، جو بعد میں ان کا رہائش اور دفتر تھا، اور انہوں نے جارج بش سے بات چیت کی۔ اوباما ان سیاہ فام لوگوں کی نسل سے نہیں ہیں جو غلام کے طور پر امریکہ لائے گئے تھے۔ ان کے والد ایک کینیائی طالب علم تھے جنہوں نے امریکہ میں ایک امریکی عورت سے شادی کی اور اوباما اس شادی کا ثمر ہیں۔