0
Tuesday 12 Nov 2024 14:42

مقاومت و مزاحمت کے اثرات اور ہمارا کردار

مقاومت و مزاحمت کے اثرات اور ہمارا کردار
تحریر: ارشاد حسین ناصر

 سوشل میڈیا کے اس دور میں جب عالمی میڈیا پر کنٹرول رکھنے والی طاقتوں کے مظالم اور جبر و ستم کی داستانیں دنیا کے ہر شخص تک کسی نا کسی طرح پہنچ جاتی ہیں۔ ان مظالم، ظلم و زیادتی،تجاوز اور غارت گریوں کی ویڈیوز یا تصاویر زندہ ضمیروں کو تڑپاتی ہیں، ان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان ظالمین سے نفرت پیدا ہوتی ہے، ان کے خلاف میدان سجتے ہیں، احتجاج ہوتے ہیں۔ جو مظلوموں کی حوصلہ افزائی اور تقویت کا باعث بنتے ہیں۔ ہم نے بہت سی ویڈیوز دیکھی ہیں، جن میں زندہ ضمیر اہل مغرب اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں کے برخلاف بہت بڑی تعداد میں بڑی شاہراہوں اور مراکز پر عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان احتجاجات اور ریلیوں میں اہل فلسطین و اہل غزہ و اہل لبنان کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کرنے والے مسلمان بھی نہیں، مگر ان کی آواز مسلمان مظلومین کے حق میں ہے۔

اس کے برعکس مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو اہل غزہ کی حمایت و زبانی مدد کرنے پر جیلوں میں ڈالا ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسے حکمران ہم پر مسلط ہیں۔ بہرحال سوشل و ڈیجیٹل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعے ہماری آنکھیں وہ بہت سے مناظر دیکھ لیتی ہیں، جن کو دیکھ کر آنکھیں اشکبار ہو جاتی۔ جن کو دیکھ کر ہمیں فکر ہوتا ہے، جن کو دیکھ کے ہمارے حوصلے بلند ہوتے ہیں، جن کو دیکھ کر ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ ایسے ہی دو ویڈیو کلپس نے کچھ ایسا سبق دیا، جس کو قارئین تک پہنچانا ضروری سمجھا۔

پہلا منظر۔۔
اسرائیل سات اکتوبر 2023ء سے مسلسل غزہ کو نشانہ بنا رہا ہے، کوئی دن خالی نہیں جاتا، جب تباہی و بربادی اور ظلم کے پہاڑ نہیں توڑے جاتے۔ روز بمبارمنٹ ہوتی ہے، بے گناہ مارے جاتے ہیں، گھر برباد ہوتے ہیں، رہائشی عمارات نشانہ بنتی ہیں اور بے گناہوں کا خون بہتا ہے۔ بلاتخصیص مرد و زن، بچے، بوڑھے، سب اس کا شکار ہوتے ہیں، ایسا ہی ایک منظر کچھ ایسے سبق دے رہا ہے کہ جو قابل ذکر سمجھتا ہوں۔ ایک علاقے میں اسرائیلی بمبارمنٹ ہوتی اور زمین پر فائرنگ بھی ہوتی ہے، ایک چودہ سالہ لڑکا شدید زخمی ہوتا ہے، مگر اس کو گولی ایسے حصہ پر لگتی ہے کہ وہ ہوش و ہواس میں میں رہتا ہے۔ اسے اٹھا کر ایک اسپتال میں لایا جاتا ہے اور بیڈ پر لٹایا جاتا ہے، جب اسے بیڈ پر لٹایا جا رہا ہوتا ہے اور ڈاکٹرز و طبی امدادی عملہ مدد کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں تو وہ چیخ رہا ہوتا ہے کہ میری نماز قضا ہو جائے گی، پہلے ہی عصر کی نماز فائرنگ میں قضا ہے، اللہ اکبر العظیم۔

دوسرا منظر۔۔
17 ستمبر 2024ء کو اسرائیل نے لبنان میں ایک انوکھا اور غیر متوقع تخریبی، دہشت گردانہ حملہ کیا۔ لبنان میں حزب اللہ اور عام عوام کے استعمال میں پیجر ڈیوایسز کو دھماکوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ بہت ہی شدید حملہ تھا، اس کا شکار ہونے والے اکثر لوگوں کی آنکھیں چلی گئیں اور ہاتھوں سے بھی محرومی ہوئی، چونکہ یہ ڈیوائس ہاتھ میں پکڑ کر منہ کے نزدیک کرکے پیغامات پڑھنے کیلئے ہوتی ہے۔ اس قدر شدید حملہ اور زخمیوں کی حالت دیکھ کر عالمی ادارے بھی حرکت میں نظر آئے، مگر جمہوری اسلامی ایران نے آگے بڑھ کر ایک خصوصی طیارہ بھیجا، جو ان شدید زخمیوں کو لبنان سے تہران لے آیا، جن کی حالت زیادہ خراب تھی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب سید مقاومت ابھی شہید نہیں ہوئے تھے۔ تہران نے زخمیوں کا فی الفور اور موثر علاج کیا، انہیں ہر قسم کی سہولیات دیں۔

پھر ان زخمیوں کی مختلف ویڈیوز سامنے آئیں، جو واقعی بہت متاثر کن تھیں۔۔۔ اسپتال کا بستر، زخموں سے چور بدن، پورے جسم، آنکھوں سمیت پٹیاں بندھی ہوئی ہیں، مگر اس حالت میں بھی نماز کو نہیں بھولے۔ کیا ہوا اگر ہاتھ زخمی ہیں، زبان تو ہے، کیا ہوا اگر آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں، دل کی آنکھیں تو روشن ہیں۔ کیا ہوا ہم حرکت نہیں کر پا رہے، ہمارے جسم میں جان تو باقی ہے۔ ہم اپنے فرض کو نہیں بھولے۔ ہم اپنے پروردگار کو نہیں بھولے، ہمیں اسرائیل، پروردگار کا شکر ادا کرنے سے نہیں روک سکتا۔ یہ مناظر واقعی متاثر کن تھے، کیسا درس دیا ہے ان مجاہدین راہ خدا نے کہ ہر حال میں اللہ کریم کا شکر ادا کرنا ہے۔ اس کی نماز کو بجا لانا ہے، اس کی عبادت کو نہیں بھولنا۔ یہ ایسے اسباق ہیں، جن سے ہمیں درس لینے کی ضرورت ہے۔

ہم اکثر تنظیمی و اجتماعی امور کی انجام دہی میں نماز کو فراموش کر دیتے ہیں یا پھر دیگر کاموں کو ترجیح دیتے ہیں، یہ ہمارا عمومی رویہ ہوتا ہے، جب ہم کسی دینی تحریک کے زیر اثر کسی اجتماعی کام میں مشغول ہوں تو یہی سمجھتے ہیں کہ جو کام ہو رہا ہے، اس کی اہمیت ہے، اس کو بجا لانا ہی اس وقت ذمہ داری ہے۔۔ نہیں دوستان۔۔ نماز اول ہے، پروردگار کی رضا یہ ہے کہ نماز پہلے پڑھی جائے، نماز اولین وقت میں پڑھنے کی بہت سی روایات اور فرامین وارد ہیں، جن سے اس کی اہمیت ثابت ہوتی ہے اور ایسے شخص پر برکات کا نزول ہوتا ہے، جو نماز کو حقیر نہیں جانتا بلکہ اولین وقت میں ادا کرتا ہے۔ پھر اس کے دیگر امور بھی خود بخود اللہ کے لطف و کرم سے درست سمت میں چلتے ہیں، جس کا واضح، بین ثبوت آج فلسطینیوں اور اہل لبنان کی فتوحات اور کامیابیاں ہیں۔

سید مقاومت شہید ہوچکے ہیں، سید ہاشم صفی الدین اپنی جان نثار کرچکے ہیں، بہت سے اہم ترین دست و بازو بھی موجود نہیں رہے، جن کے ناموں و کاموں سے بہاریں تھیں، آج وہ گلشن کو افسردہ کر گئے ہیں، مگر اللہ پہ توکل، اس کی اطاعت، اس کی عبادت، اس کی معصیت سے بچنے اور ولایت سے تمسک نے انہیں کامیاب اور فتح مند رکھا ہے۔ ہمیں بھی اس راستے کو اپنانا ہوگا، ہمیں اپنے رویوں، اپنے انداز، اطوار اور طریقہ کار کو اس راستے پر لانا ہوگا، جو کامیاب لوگوں کا راستہ ہے، جس پر چل کر شہداء نے اپنی منزل پالی ہے۔ اگر ہم واقعی اسی منزل کے راہی ہیں، جو شہداء کی منزل ہے تو ہمیں شہداء کا راستہ، مجاہدین کا راستہ ہی اس مقام و منزل تک پہنچا سکتا ہے۔

ان ماوں کو سلام پیش کرتا ہوں، جو ایسے بیٹوں کو جنم دیتی ہیں، جن کے وجود کی برکات سے گلشن مہکتا ہے اور وہ سید مقاومت کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ سید عباس موسوی جیسا چمکتا ستارہ بنتے ہیں، سید ہاشم صفی الدین کی صورت میں گلشن کو مہکاتے ہیں۔ شہید سنوار کی شکل میں روشن مثال بنتے ہیں، شہید ہنیہ جیسے کردار بنتے ہیں۔ پاکستان میں شہید الحسینی اور شہید ڈاکٹر اسی قبیلہ کے لوگ تھے، جن لوگوں نے ان کی مجلس و محفل میں وقت گذارا ہے، وہ یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ یہ شہیدین پاکستان میں اسی سلسلہ وفا کے راہی تھے، جو کربلا کے تپٹے صحرا سے جڑا ہوا ہے اور آج سید علی (خامنہ ای) کی رہبری میں امام وقت کے انقلاب کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔
خدا رحمت کنید این عاشقان پاک طینت را
خبر کا کوڈ : 1172199
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش