تحریر: عباس مقتدائی (نائب صدر قومی سلامتی و خارجہ پالیسی کمیٹی ایران)
امریکہ میں صدارتی الیکشن کے نتائج سامنے آ جانے کے بعد اس وقت خود امریکہ میں اور دنیا کے دیگر مختلف خطوں میں ایسی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو گئی ہیں جو آنے والے حالات پر بھی اثرانداز ہوں گی۔ یہاں اس نکتے پر توجہ ضروری ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی عام طور پر الیکشن کے نتائج سے زیادہ متاثر نہیں ہوتی اور خاص مواقع کے علاوہ اس میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ گذشتہ کئی عشروں بلکہ ابتدا سے ہی امریکہ نے ہمیشہ اپنے قومی مفادات کے حصول کے لیے عالمی سطح پر طاقت اور اثرورسوخ پیدا کرنے، برقرار رکھنے اور اس میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مقصد کے لیے امریکہ عالمی سطح پر تعاون، متعدد علاقائی معاہدوں کی تشکیل اور عالمی اتحاد تشکیل دینے کے درپے رہا ہے۔
ان معاہدوں کی تشکیل اور ان سے دستبرداری اس کے مفادات کی بنیاد پر انجام پاتی ہے۔ جہاں امریکہ کے مفادات ہوتے ہیں وہاں معاہدے تشکیل دیتا ہے اور جب حالات بدلتے ہیں تو انہی معاہدوں سے دستبردار ہو جاتا ہے یا ان معاہدوں کو غیر موثر کرنے کی کوشش کرتا ہے جن میں وہ خود بھی شامل ہوتا ہے۔ امریکہ نے عالمی تنظیموں اور اداروں سے بھی ایسا ہی طرز عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ آج اقوام متحدہ کی عدم افادیت اور غیر موثر ہونے کی ایک بڑی وجہ وہ رکاوٹیں ہیں جو امریکہ نے خاص طور پر اقوام متحدہ کی قومی سلامتی میں پیدا کر رکھی ہیں۔ لہذا یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ امریکہ پوری دنیا میں صرف اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی نظر میں دیگر ممالک کے مفادات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
امریکی حکام کی نظر میں حتی یورپ بھی ایک حریف سمجھا جاتا ہے جس کے نتیجے میں امریکہ یوکرین جنگ کو یورپ کا مسئلہ سمجھتا ہے اور اسے امریکہ کی خارجہ پالیسی کا ایشو نہیں سمجھتا۔ دنیا کے دیگر خطوں کو بھی امریکہ اسی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر مشرقی ایشیا خطے میں چین اور تائیوان کے درمیان جاری تنازعہ یا جنوبی کوریا اور شمالی کوریا میں موجود چپقلش کے بارے میں امریکہ کی پالیسی یہ نہیں کہ ان تنازعات کو حل کیا جائے اور ان خطوں میں موجود تناو ختم کیا جائے بلکہ امریکی حکمران یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ان تنازعات یا اس تناو سے کس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ان کے تناظر میں کس طرح اپنے مفادات حاصل کر سکتے ہیں؟ لہذا امریکہ ہر گز دنیا کے کسی حصے میں پائیدار امن یا وہان موجود تنازعات مستقل طور پر حل ہونے کے لیے مخلصانہ کوشش انجام نہیں دیتا۔
دوسرے الفاظ میں اگر کسی خطے میں جنگ جاری ہے تو امریکہ وہ جنگ ختم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا بلکہ اس جنگ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مفادات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ پس اپنے مفادات کے تناظر میں امریکہ جس جگہ ضروری دیکھتا ہے وہاں جنگ کو فروغ دیتا ہے اور جہاں ضروری سمجھتا ہے وہاں قیام امن کو اپنے ایجنڈے میں شامل کر لیتا ہے۔ یوں امریکی حکمرانوں کی سوچ پوری طرح مفاد پرستانہ، وہ بھی صرف امریکی مفادات پر مشتمل ہے۔ وہ مغربی ایشیا، فلسطین، اسرائیل، شام، افریقہ اور دیگر خطوں کے لیے اسی سوچ سے پالیسی بناتے ہیں۔ گذشتہ تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ میں صدر تبدیل ہونے سے داخلہ سیاست میں تو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں لیکن خارجہ سیاست جوں کی توں رہتی ہے۔
اس وقت امریکہ میں صدارتی الیکشن کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ برسراقتدار آئے ہیں اور گذشتہ تجربات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ تاجرانہ ذہن کے مالک ہیں لہذا ایک طرف مذاکرات اور سودا بازی کا عمل امریکہ کی خارجہ سیاست پر حاوی رہے گا جبکہ دوسری طرف وہ پوری طرح مفادات کو مدنظر رکھیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بخوبی جانتے ہیں کہ ایشیا، خاص طور پر مغربی ایشیا میں امریکہ کی طاقت اور اثرورسوخ کمزور ہو چکا ہے، لہذا تاجرانہ ذہن کی بدولت وہ ایران سے موجودہ زمینی حقائق کے تناظر میں سازباز کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ طرز عمل ایران کے اقتدار میں اضافے کا پیش خیمہ ثابت ہو گا کیونکہ اس وقت ایران مادی لحاظ سے بھی طاقتور ہے اور میزائل، ریڈار اور فوجی سازوسامان کے لحاظ سے بہت مضبوط ہے جبکہ سیاسی میدان میں بھی خطے میں اس کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔
ایران نے خطے میں چین اور روس جیسے طاقتور اتحادی بنا رکھے ہیں جبکہ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے علاقائی اتحادوں میں بھی شامل ہے۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت امریکہ ہمیشہ سے زیادہ خطے میں کمزور ہو چکا ہے جبکہ ایران ایسا ملک ہے جس کا رقبہ اسرائیل سے 70 گنا زیادہ ہے اور فوجی طاقت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد خطے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے حق میں طاقت کا توازن تبدیل ہو چکا ہے جسے دوبارہ اپنے حق میں واپس لانے کے لیے غاصب صیہونی رژیم سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے اور گذشتہ ایک سال سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ اس دوران ایران بھی اسرائیل کے خلاف دو بڑی کاروائیاں، وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 آپریشنز انجام دے چکا ہے جبکہ عنقریب وعدہ صادق 3 آپریشن انجام پانے کی توقع ہے جو اپنی شدت اور وسعت میں گذشتہ کاروائیوں سے کہیں زیادہ شدید اور وسیع ہو گا۔