تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
مانا کہ تعلیم کو ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہونا چاہیئے۔ تاہم پہلے تعصب کی تعریف تو کی جائے۔ اس سے بڑھ کر تعصب کیا ہوگا کہ یکساں نصابِ تعلیم کے نام پر ساری ملت کے بچوں کے عقائد پر شب خون مارا جائے۔ ملک کی کلیدی پوسٹوں پر جب ایک ہی اندازِ فکر کے لوگ براجمان ہونگے تو انہیں اسلام کی من گھڑت تفسیر و تشریح سے کون روک سکتا ہے۔ ایک مہذب سماج میں تعلیمی اداروں کے اندر معصوم بچوں کے اذہان پر کسی خاص فرقے کے عقائد کی یلغار کوئی معمولی بات نہیں بلکہ انتہا درجے کی جارحیّت ہے۔ یہ حد سے بڑھا ہوا تعصب ختم النبیین حضرت محمدﷺ کی ذات تک جا پہنچا ہے۔ نبی اکرمؐ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا مرکز ہیں۔ اسی ذات کی مرکزی حیثیت کو مخدوش کرنے کیلئے تمام درسی کتابوں میں درود شریف میں تحریف کر دی گئی ہے۔ جہاں بھی نبیؐ کا نام آیا ہے، وہاں درود شریف میں "اصحابہ" کا اضافہ موجود ہے۔ والدین کی اجازت اور رضایت کے بغیر ان کے بچوں کو غلط درود شریف پڑھانا کیا ملکی آئین، مذہبی آزادی اور نیشنل کریکلم فریم ورک کی خلاف ورزی نہیں۔؟
چودہ سو سال کے بعد ایسا عمل بذاتِ خود ایک بدعت کے زمرے میں آتا ہے اور ساری دنیا میں آج تک کسی اسلامی ملک یا کسی اسلامی فرقے کے ہاں رائج نہیں ہے۔ اس طرح سے مذہبی تعصب کی دیگر کئی مثالیں نصابی کتب میں موجود ہیں، جنہیں ہم اس وقت پیش نہیں کر رہے۔ خطرے کی گھنٹی یہ بھی ہے کہ حقائق اور سچائی کے خلاف تعصب فقط اسلامیات، تاریخ، مطالعہ پاکستان یا اردو زبان تک محدود نہیں بلکہ اقبالیات کے نام پر بھی فضولیات سے کتابوں کو بھر دیا گیا ہے۔ اقبالیات کے متعلق بھی جو درسی مواد کتابوں میں ڈالا گیا ہے، وہ خود چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ان کتابوں کا مواد طے کرنے والوں کو اقبالیات اور نظامِ تعلیم کی ہوا تک نہیں لگی۔ انہوں نے جیسے اپنے ذاتی ذوق اور عقیدے کے مطابق درسی محتویٰ مرتب کیا ہے، اُسی طرح اپنے من پسند افراد سے ہی کتابیں بھی لکھوائی ہیں۔
کتابوں میں بچوں کیلئے علامہ اقبال کی نظمیں مثلاً ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری،۔۔۔ شامل کرکے ان کے اشعار کی من پسند تشریح کرنے سے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اب بچہ اقبال کا شاہین بن گیا ہے۔ نصابِ تعلیم میں یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے ہی نہیں کہ طالب علم کو اقبالیات کے فکری سانچے میں ڈھالنے کیلئے سارے نصاب کو اقبالیات کے حوالے سے بطورِ سانچہ ہی ہونا چاہیئے۔ صرف ایک اردو کی کتاب میں علامہ کی ایک دو نظمیں شامل کر دینے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ نصابِ تعلیم کے حوالے سے جو چیز سب سے زیادہ خطرناک اور مسموم ہے، وہ اقبال کے نظریات سے پہلوتہی ہے۔ مثلاً اقبال کے ہاں سلطانی جمہور، خلافت، امامت، مہدویت، استعمار شناسی، خودی، مذہب، تصورِ حیات، عشق اور مُلاّ کے بارے میں جو فکری خطوط ہیں، انہیں یکسر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ کسی اخبار کی مانند یہ لکھ دینا کہ اقبال نے فلاں شعر میں یہ کہا اور فلاں نظریئے کے بارے میں یوں لکھا، یہ نصابِ تعلیم کے زمرے میں آتا ہی نہیں۔ نصاب تعلیم وہ ہے، جو طالب علم کو نظریات کے مطابق ایسے تراشتا ہے کہ وہ معاشرے میں مجسّم نظریہ بن جاتا ہے۔
بہرحال اسی طرح دیگر موضوعات بھی معلومات اور رٹے کی حد تک تو مفید ہیں۔ طالب علم کتاب سے سطر بہ سطر عبارتیں یاد کر لیتے ہیں اور اساتذہ بھی انہیں کچھ نوٹس رٹوا دیتے ہیں لیکن اگر سطر تبدیل کر دی جائے اور عبارت بدل دی جائے تو طلباء کیلئے مفاہیم کو درک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نصابِ تعلیم میں ذہن مبداء سے ذہن مقصد میں معلومات کے ہمراہ مفہوم کا منتقل ہونا ضروری ہے، لیکن ہمارے ہاں فقط معلومات کے انتقال پر توجہ مرکوز ہے۔ مثلاً بچہ یہ تو یاد کر لیتا ہے کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ اس سے جب بھی پوچھیں، وہ درست جواب دے گا لیکن صفر اور صفر یا پانچ اور پانچ کتنے ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یقین کے ساتھ دینا اُس کیلئے مشکل ہو جائے گا۔ یہ مشکل جب عقائد و افکار و نظریات کے ساتھ ہو جائے تو اور بھی سنگین ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہماری رائے میں اسلامی عقائد اور اقبالیات کو کسی خاص فرقے کے لوگوں کے ہاتھوں میں بطورِ ہتھکنڈہ ہونے کے بجائے نظامِ تعلیم کیلئے بطورِ قالب اور بطورِ سانچہ ہونا چاہیئے۔