تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
کسی صحافی نے لکھا تھا کہ امریکہ کے اتحادی ممالک اچھے کی امید رکھے ہوئے ہیں اور برے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اچھے کی امید سے ان کی مراد یہ تھی کہ کملا ہیرس جیت جائے گی اور برے کی تیاری سے مراد کہ ٹرمپ جیت جائے گا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یورپ اور ایشیاء میں موجود امریکی اتحادی بہت پریشان ہیں کہ ہم ٹرمپ سے کیسے ڈیل کریں گے، یا ٹرمپ ہم سے کیسے ڈیل کرے گا؟ جیسے ہی امریکی الیکشن کا نتیجہ آنے لگا تو یہ واضح ہوگیا کہ ٹرمپ جیت رہا ہے، اس لیے دنیا بھر کے وزارت ہائے خارجہ میں جیت پر کیسا ردعمل دینا ہے؟ اس پر میٹنگز شروع ہوگئیں۔ویسے تو امریکی اسٹبشلمنٹ کے فیصلے طے شدہ ہوتے ہیں اور ان میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی جا سکتی، مگر ٹرمپ اسٹبلشمنٹ کے لیے بھی ایک امتحان ہی ہوگا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر حملہ کر دیا تھا اور امریکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ لوگ سینیٹ میں دندناتے پھر رہے تھے۔ بہت سے لوگوں نے بھاگ کر جانیں بچائی تھیں۔
ظاہری طور پر دنیا کی ایک بڑی طاقت کے لیے ایک ایسے شخص کا صدر بن جانا، جس کے بارے میں کوئی پیشین گوئی نہ کی جا سکتی ہو، بہت ہی خطرناک صورتحال ہے۔ دوستیاں اور دشمنیاں تسلسل چاہتی ہیں، جو شخص ایک لمحہ میں پوری خارجہ پالیسی کا تیا پانچہ کرکے رکھ دیتا ہو، اس سے ڈیل کرنا ہر ایک کے لیے مشکل ہوگا۔ ڈیموکریٹس دنیا بھر میں جنگیں مسلط کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ انسانی حقوق اور آزادیوں کے نعرے لگاتے ہیں، مگر عملی طور پر تمام بڑی جنگوں کو انہوں نے ہی شروع کیا اور جنگوں کو اپنی معیشت کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ ٹرمپ بار بار جنگیں بند کرانے کا اعلان کرتا رہا ہے۔
یوکرین جنگ کے بارے میں تو یورپ بڑے امتحان میں ہے کہ اگر یہ جنگ ابھی بند ہوتی ہے اور روس پورے یوکرین پر قبضہ کر لیتا ہے اور امریکہ کوئی عملی قدم نہیں اٹھاتا تو یورپ کو دوبارہ جنگی ماحول کی طرف پلٹنا ہوگا۔ ٹرمپ مفت میں یورپ کے لیے دستیاب نہیں ہوگا۔ ٹرمپ ایک تاجر ہے، وہ یورپ کی جیبیں خالی کرانے کا پورا انتظام کرے گا۔ یوکرین جنگ نے جنگ کی گرمی کو یورپ کی سرزمین پر پہنچا دیا ہے، اسے یہیں روکنا یورپ کے مفاد میں ہے۔ یورپ نے جو کردار روس کے خلاف ادا کیا، اس سے لگتا نہیں کہ معاملہ اتنی سادگی سے حل ہوگا۔ ٹرمپ یہ جانتا ہے اور وہ اس کا پورا پورا فائدہ اٹھائے گا۔ یورپ کی فوجی صلاحیت زیر سوال ہے، اس لیے یورپ خود اپنی حفاظت کرسکے، یہ بہت ہی مشکل لگ رہا ہے۔ یورپ پوری طرح سے امریکہ کا محتاج ہے یا امریکہ نے پوری طرح یورپ کو اپنا محتاج بنا دیا ہے۔
الیکشن میں امریکی عرب اور مسلم ووٹ بڑی تعداد میں ٹرمپ کو پڑا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، مگر بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈیموکریٹس نے اہل غزہ کا خون بہنے دیا، بلکہ اسے بہانے میں پورا کردار ادا کیا اور اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کی۔ عرب اور مسلمان غصے میں تھے، جس کا ٹرمپ نے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ ہم امریکی سیاست کی تاریخ کا سب سے بڑا اتحاد بنا رہے ہیں۔ مشی گن کے عرب اور مسلم ووٹرز ہمارے ساتھ ہیں، کیونکہ وہ امن چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ مُسلم برادری یہ بات جانتی ہے کہ کملا ہیرس اور اُن کی جنگ پسند کابینہ مشرق وسطیٰ پر حملہ کرکے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر دے گی اور تیسری عالمی جنگ کا آغاز کر دے گی۔ آخر میں انھوں نے اپیل کی ٹرمپ کو ووٹ دیں اور امن کو بحال کریں۔
ٹرمپ کی کسی بات پر اعتماد تو خود امریکی نہیں کرتے، دنیا کہاں کرے گی؟ یوکرین اور تائیوان کے معاملے میں تو کسی حد تک وہ جنگ کو روکنے میں شائد دلچسپی لے یا اس کو یوں سمجھ لیں کہ وہ اپنی قیمت بڑھانے اور یورپ کو نچوڑنے کے لیے جنگ بندی کی کوشش کی طرف جاتا نظر آسکتا ہے۔ ٹرمپ کا ماضی بتاتا ہے کہ یہ بائیڈن سے زیادہ اسرائیل نواز ہے۔ اس نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، اسی کے دور میں عرب ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک دوڑ شروع ہوگئی تھی۔ اگرچہ اسرائیلی میڈیا میں یہ شرلیاں چلی تھیں کہ ٹرمپ نے نتن یاہو کو کہا تھا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
امریکہ کے مسلم رہنماء فضل الرحمان نے درست کہا کہ ٹرمپ (فلسطین اسرائیل) ثالثی نہیں کرے گا بلکہ حل مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ ٹرمپ یہ خیال کرتا ہے کہ امریکہ بہت طاقتور ہے۔ وہ ایک جارحانہ سیاست دان ہے، جو چیزوں کو لٹکانے یا معاملات میں تاخیری حربے اپنانے میں یقین نہیں رکھتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ کو امریکہ کی بالادستی پر بہت اعتماد ہے، جو ان کی سیاست اور خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ اگر ایسا ہوا تو اسرائیل سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کا ہوگا، کیونکہ حل صرف کمزوروں پر مسلط کیا جا سکتا ہے۔ یہی بات درست ہے، اب اہل فلسطین پر جبر کے تیز رفتار دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ اسرائیل کو کھلی چھوٹ کے ساتھ ساتھ امریکہ کی مزید عملی سپورٹ بھی ملے گی۔ یاد رکھیں کہ یہ معاملات اتنے سیدھے نہیں ہیں، اب حالات بدل چکے ہیں۔
پروفیسر جمیل اصغر جامی نے خوب لکھا ہے: اسرائیل تمام عالمی طاقتوں کی بھرپور مدد کے باوجود کس حد تک یہ جنگ جیت رہا ہے، آپ خود اندازہ لگا لیں۔ نیتن یاہو نے اپنے وزیر دفاع یواو گیلنٹ کو عہدے سے برطرف کر دیا۔ جنگ کے دوران اس نوع کی برخاستگی کی مثالیں کم ملتی ہیں۔ یہ وہی یواو گیلنٹ ہے، جو صبح شام زہر اُگلتا تھا اور بلند بانگ دعوے کرتا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو کاکروچوں کی طرح مٹا دے گا۔ قدسیوں کا نام و نشان ختم کر دے گا۔ ہم اللہ کے حضور سربسجود ہیں اور اس کی مسلسل نصرت کے لیے دعا گو ہیں۔ (تاریخ کی پیشانی پر یہ تاسف ہمیشہ ثبت رہے گا کہ کاش اس فیصلہ کن مرحلے پر ابابیلوں کے چند اور جھنڈ کہیں سے آملتے اور بربریت کی ایک بڑی شرمناک علامت کا ناطقہ بند کر دیا جاتا)