تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی
اسلامی جمہوریہ ایران کی چودہویں حکومت یعنی ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی ٹیم کو اقتدار میں آئے صرف چار ماہ ہوئے ہیں۔ ان چار ماہ میں ایران کے چار اعلیٰ عہدیداروں نے اسلام آباد کا دورہ کیا ہے۔ ان دوروں کے نتیجے میں ایران اور پاکستان کے تعلقات میں اہم تبدیلیاں رونماء ہوئی ہیں۔ اگر ان تعلقات کے فروغ کی طرف اشارہ کیا جائے تو ان تعلقات کی بہار رواں سال مئی سے شروع ہوئی، جس کا سہرا شہید سید ابراہیم رئیسی کے سر ہے، جنہوں نے اسلام آباد کا تاریخی سفر انجام دیا۔ مسعود پزشکیان کی حکومت کے پہلے چار مہینوں میں اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات میں وزیر خارجہ عباس عراقچی کے دورے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ وزیر خارجہ کے علاوہ پولیس کے کمانڈر، صنعت و معدن کے وزیر اور ایران کے نائب وزیر دفاع کا دورہ بھی اپنی جگہ پر اہمیت کا حامل ہے۔
اس مختصر عرصے میں چار اعلیٰ حکام کے دورے سے محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک میں مختلف شعبوں میں تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا عزم پایا جاتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی و سفارتی ماہرین نے ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کے حالیہ دورہ اسلام آباد کو نہایت اہم قرار دیا ہے۔ یہ اقدام تہران کی اپنے پڑوسیوں بالخصوص پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی مسلسل پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان ماہرین کا خیال ہے کہ مختلف سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی جہتوں کے ساتھ اس سفر نے یہ ظاہر کیا ہے کہ تہران مشترکہ اقتصادی خوشحالی اور علاقائی امن و استحکام تک رسائی کے لیے اپنے مشرقی پڑوسی کی صلاحیتوں کو فعال کرنے میں کوتاہی نہیں کرنا چاہتا۔
ایران کے وزیر خارجہ نے پاکستان کے اعلیٰ سیاسی اور فوجی حکام کے ساتھ ملاقات میں اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ سیاسی، تجارتی، ثقافتی اور سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے ایران کے عزم پر زور دیا۔ بہت سے پاکستانی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنانے، علاقائی مسائل اور اقتصادی پیشرفت میں تعاون کو یقینی بنانے، بالخصوص عالم اسلام کو درپیش چیلنجز بشمول خطے میں صیہونی حکومت کے جرائم کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے یہ دورہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں باہمی تعلقات کی مضبوطی پر زور دیا گیا ہے۔
دفاعی سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانا
ایران کے وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے دو دن بعد، اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے نائب وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل سید حجت اللہ قریشی نے دفاعی-سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے اور پاکستان کے اعلیٰ دفاعی اور اعلیٰ حکام سے ملاقات کے لئے پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے میں فوجی اور سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے بعض دو طرفہ اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں، ایران کے نائب وزیر دفاع نے کہا ہے کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان گہری مذہبی، ثقافتی اور لسانی مماثلتیں موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہمارے پاکستان کے ساتھ مختلف سطحوں پر اچھے تعلقات ہیں اور ہم نے ہمیشہ پاکستانی حکام کے ساتھ دفاع اور سکیورٹی کے شعبوں میں قریبی تعاون کیا ہے۔
ایران کے نائب وزیر دفاع نے نے پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ خوش قسمتی سے ہماری ہم آہنگی اعلیٰ سطح پر ہے اور دونوں ممالک دہشت گردی کے خطرات سے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں اور اس تعاون سے دونوں ممالک کی سرحدیں محفوظ اور مستحکم سرحدیں بن جائیں گی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل "حمید واحدی" کے دورے کے موقع پر ایران اور پاکستان کی فضائی افواج کے درمیان تعاون ان دیگر پیش رفتوں میں سے ایک ہے، جس پر دونوں پڑوسی ممالک کے حکام نے زور دیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے کمانڈر "حمید واحدی نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر اور پاکستانی فضائیہ کے کمانڈر جنرل ظہیر احمد بابر کے ساتھ اپنی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ملاقات کے دوران ہم نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کی خصوصی ٹیمیں تربیت کے شعبے خاص طور پر جدید تعاون کے میدان میں نہ صرف ایک دوسرے کی مدد کریں گی بلکہ تجربات کا تبادلہ بھی کریں گی۔
قابل ذکر ہے کہ علاقائی تعاون اور کثیرالجہتی نظام کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اقتصادی، ثقافتی اور سلامتی کے شعبوں میں بین الاقوامی فورمز میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے دونوں ممالک نے ملکر آگے بڑھنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہاں پر شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس میں شرکت کے لیے ایران کے وزیر صنعت، معدن و تجارت سید محمد اتابک کے دورہ اسلام آباد کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس دورے کے دوران دونوں ہمسایہ ممالک کے حکام نے مشترکہ اجتماعی اہداف تک پہنچنے کے لئے بین الاقوامی سطح پر باہمی تعاون کو وسعت دینے پر زور دیا۔ اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں وزیر صنعت، معدن و تجارت نے علاقائی انضمام کے لیے چودھویں حکومت کے عزم پر زور دیا۔ انہوں نے صیہونی حکومت، امریکہ کی اقتصادی دہشت گردی اور خطے میں کثیرالجہتی تجارت کو محدود کرنے والے اقدامات سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات پر تاکید کی۔
تہران اور اسلام آباد کے حکام ان دوروں کے ذریعے اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے کے مواقع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے حکام باہمی گفتگو اور دوستانہ تعلقات کی تجدید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس کے موقع پر ایک بار پھر ایک دوسرے سے ملے، تاکہ یہ ملاقات دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کا ایک اور سنہری موقع ثابت ہو۔ اس سے پہلے 4 اکتوبر کو پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس کے موقع پر ایران کے صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ایران کے صدر نے 14ویں حکومت کے تمام دوطرفہ معاہدوں کو حتمی شکل دینے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے عزم پر زور دیا، جس میں سالانہ 10 بلین ڈالر کی تجارت کا سمجھوتہ بھی شامل ہے، جو کہ شہید رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران کیا گیا تھا۔
خطے کے ممالک کے درمیان ایک وسیع ریل اور سڑک وغیرہ کے مواصلاتی نیٹ ورک بنانے، لوگوں کے درمیان ثقافتی تبادلے اور بات چیت کو آسان بنانے کے لیے اپنے ویژن کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر پزشکیان نے کہا ہے کہ اس ویژن پر عمل درآمد کے لیے ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہے، جس میں تمام سکیورٹی، سیاسی، اقتصادی اور مواصلاتی نظام شامل ہو۔ بلاشبہ یہ منصوبہ ترقی اور پیشرفت کو تیز کرسکتا ہے اور خطے کے لوگوں خاص طور پر دونوں پڑوسی ممالک کو قریب لاسکتا ہے اور مشترکہ مفادات کی ضمانت دے سکتا ہے۔" پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس ملاقات میں کہا کہ اس سال مئی میں ایران کے شہید صدر کے دورہ اسلام آباد کے دوران دونوں ممالک کے درمیان بہت اچھے معاہدے طے پائے تھے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ اسلام آباد، اسلامی جمہوریہ ایران کی موجودہ حکومت کے تعاون سے اس کو عملی جامہ پہنانے کے قابل ہو جائے گا، یہ معاہدے دو طرفہ تعلقات کی مزید ترقی کو یقینی بنائیں گے۔